محمد اکرم خالد
گزشتہ دنوں سابق صدر پاکستان آصف زرداری کی میگا منی لانڈرنگ اور پارک لین کیس میں ضمانت منظور کر لی گئی ضمانت پر رہائی کے بعد سابق صدر آصف زرداری کراچی پہنچے جہاں ان کو خرابی صحت کے سبب ایک نجی اسپتال میں داخل کر دیا گیا جہاں ان کا علاج کیا جارہا ہے میاں صاحب کی رہائی اور بیرون ملک علاج کے لیے جانے اور زرداری صاحب کی رہائی پر موجودہ حکومت میں بے چینی پائی جاتی ہے ان تمام معاملات کو خان صاحب کے کرپشن کے بیانیہ کی ناکامی سے جوڑا جارہا ہے اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ میاں صاحب کے بیرون ملک جانے سے تحریک انصاف کے ووٹروں میں مایوسی پیدا ہوئی ہے جس کا اظہار وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے بھی کیا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر ڈیڑھ سال سے گرفتاریاں کی جارہی ہیں مگر کرپشن ثابت نہیں ہورہی اور کرپشن کے الزامات میں ملوث اپوزیشن کے رہنماء کئی کئی ماہ نیب کی حراست میں رہنے کے بعد عدالتوں سے ٹھوس شواہد نہ ہونے کی بنیاد پر ضمانتوں پر رہا ہورہے ہیں جس سے تحریک انصاف کے بیانیہ کو مزید نقصان پہنچ رہا ہے کوئی دو رائے نہیں کہ کرپشن کی تحقیقات کرنے والے ادارے اس وقت تک کسی بھی سیاسی رہنماء پر ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کرپشن ثابت نہیں کر سکے ہیں اپوزیشن کے بہت سے سینئر رہنماء جن میں حمزہ شہباز سعد رفیق سابق وزیر اعظم شاہد خاقان مفتاح اسماعیل سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سمیت کئی رہنماء نیب کی حراست میں ہیں تو مریم بی بی شہباز شریف اور آصف زرداری کئی ماہ نیب کی حراست میں رہنے کے بعد ضمانت پر باہر ہیں مگر ان میں سے کسی پر بھی نئے پاکستان میں کرپشن ثابت نہیںہوسکی ہے۔
ہماری نظر میں موجودہ حکومت کر پشن کے خاتمے پر سنجیدہ نہیں دکھائی دے رہی ایک طرف کرپشن کے خاتمے کی گونج سنائی دیتی ہے تو دوسری جانب ملک کی جڑوں کو کرپشن کے ذریعے کمزور کرنے والوں کو پلی بار گینگ کے قانون کے ذریعے ریلیف فراہم کیا جارہا ہے ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے سے ان کے ناجائز اثاثوں کو جائز بنایا جارہا ہے کالے دھن کو سفید میں تبدیل کیا جارہا ہے یعنی ان کو اشرافیہ ہونے کی ہر سہولت فراہم کی جارہی ہے جو خان صاحب کے بیانیہ کی شکست ہے۔ پلی بارگینگ ایمنسٹی اسکیم ہی وہ ہتھیار تھے جن کو استعمال کر کے ماضی کی حکومتیں اپنی جماعت کے اندار اور مخالف جماعت کے کرپٹ افراد کو قومی خزانہ لوٹنے کا مزید موقع فراہم کرتی تھیں جس کی وجہ سے کرپشن کا خاتمہ ہر دور میں ناممکن رہا کرپشن کرنے والوں اور ملک کو نقصان پہنچانے والوں کو ہم نے کبھی مثال بنا کر سزا نہیں دی جس کی وجہ سے کرپشن کا جن ہمیشہ بے قابو رہا ہے۔ گزشتہ دنوں آصف زرداری کی رہائی کے بعد وفاقی وزیر شیخ رشید کا یہ کہنا کہ آصف زردای نے پلی بارگین نہیں کی تو بلاول بھٹو کا مستقبل ختم ہوجائے گا۔ پلی بارگین کو سیاسی مستقبل سے جوڑنا سمجھ سے بالا ہے اس طرح کے بیانات سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ کرپشن کرنے والوں کو ایک موقع فراہم کرنا چاہتی ہیکہ وہ ماضی کا لوٹا مال واپس کر دیں اور نیا ڈاکا مارنے کی تیاری کریں یعنی چور کو سزا نہیں بلکہ مزید چوری کرنے کا موقع فراہم کیا جارہا ہے۔
ہماری نظر میں قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کے لیے پلی بار گینگ کا قانون ہی سب سے بڑا این آر او ہے پلی بار گینگ کا مقصد کریمنل اور استغاثہ کے درمیان معاہدہ ہے نیب کے آرڈینس کی دفعہ ۲۵ کے تحت کوئی بھی شخص جس نے قومی خزانہ لوٹا ہو وہ رضاکارانہ طور پر نیب کو پلی بارگین کی درخواست دے سکتا ہے اور نیب اس درخواست کو قبول کر سکتا ہے جس کے ذریعے لوٹی ہوئی دولت کا دس فی صد واپس کرکے قومی خزانے میں جمع کرایا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پلی بار گینگ ایک کالا قانون ہے جس کے ذریعے کوئی بھی شخص برسوں کرپشن کرتا ہے اس ملک کے غریب عوام کے حقو ق پر ڈاکا ڈالتا رہتا ہے اس کو اگر نیب کی جانب سے گرفتار کر بھی لیا جاتا ہے تو کرپشن کی پوری رقم پر چند فی صد پلی بارگین کی صورت میں ادا کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ سینیٹ کمیٹی برائے قانون وانصاف نے نیب سے متعلق ترمیمی بل منظور کر لیا ہے اس بل کا بغور مطالعہ کریں تو نیب قوانین میں ترمیم کا یہ بل صرف بدعنوان عناصر کرپٹ سیاستدانوں کو خوش اور مزید سہولتیں فراہم کرنے کے لیے منظور کیا گیا ہے۔ یقینا نیب قوانین میں اصلاحات بہت ضروری ہے مگر صرف اپنی ذات کو محفوظ بنانے کے لیے اصلاحات لانا ہی اداروں کی تباہی کا سبب بنتا رہا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ درست سمت بہتر تحقیقات غیر جانبدار احتساب کے ذریعے ہر صورت ہونا چاہیے مگر اس سے پہلے انصاف اور تحقیقات کے اداروں میں موثر مضبوط اصلاحات کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ ساتھ ہی نیب کے آرڈینس کی دفعہ ۲۵ پلی بارگینگ کا خاتمہ بھی کیا جانا چاہیے۔ قومی دولت لوٹنے والوں کو کوئی سہولت نہیں ملنی چاہیے حکومت اگر واقعی کرپشن کے خاتمے اور نیب کی بہتر اصلاحات پر سنجیدہ ہے تو پلی بارگینگ کے قانون کا خاتمہ کیا جائے قومی خزانے کو لوٹنے والوں اس ملک کی جڑوں کو کمزور کرنے والوں غریب کے نام پر اپنے ناجائز اثاثے بنانے والوں کو پلی بار گینگ اور ایمنسٹی اسکیم کی سہولت دینے والے خود قومی مجرم ہیں۔ احتساب کرپشن کی علم برادر موجودہ حکومت اگر اس ملک و قوم کی ترقی وخوشحالی پر سنجیدہ ہے تو نیب اصلاحات میں سب سے پہلے پلی بارگینگ کی دفعہ کا خاتمہ کرے امیر اور غریب کا احتساب ایک قانون کے تحت کیا جائے۔ اگر ایک عام انسان غربت کے ہاتھوں تنگ چند روپے کا موبائل چھین لیتا ہے تو اس کی سزا کا قانون اور جبکہ ایک سرکاری افسر، ایک سیاستدان قومی خزانے کو اربوں روپے کا چونا لگا کر ناجائز اثاثے بناتا ہے تو وہ نیب کے قانون کی دفعہ ۲۵ کے تحت پلی بارگین کر کے کرپشن کی رقم کا چند فی صد ادا کر کے آزاد ہوجاتا ہے۔ اگر حکومت اور ادارے پاکستان کی ترقی وخوشحالی کرپشن فری پاکستان کی سنجیدہ خواہش رکھتے ہیں تو پہلے احتساب اور تحقیقات کے اداروں میں بہتر اصلاحات لائیں تاکہ کرپشن کا حقیقی معنوں میں خاتمہ ممکن بنایا جاسکے۔ غریب امیر کے لیے ایک قانون جب تک نہیں ہوگا کرپشن کا خاتمہ کبھی بھی ممکن نہیں ہوسکے گا کرپشن کا خاتمہ صرف ایک سیاسی نعرہ بن کر رہ جائے گا۔