مولانا جان محمد عباسی مرحوم ایک مدبر،درویش سیاست دان

311

قمر محمد خان
جنرل سیکرٹری جمعیت الفلاح
اسلامی دنیا کے ممتاز عالم دین،مفکر،مدبر اور مفسیرمولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے برصغیر پاک و ہند کے 75 افراد کی قلیل تعداد پر جماعت اسلامی پاکستان کی بنیاد1941میں رکھی۔جماعت اسلامی کے قیام کا مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنا،انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ رب العزت کی بندگی میں دینا قرار پایا۔
جماعت اسلامی عام دینی و سیاسی جماعتوں سے مختلف ایک دینی و انقلابی تحریک ہے۔یہ نہ نسلی،لسانی اور نہ ہی مسلکی جماعت ہے۔یہ خالصتاً اقامت دین کی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے اس کی پوری تاریخ اس بات پر شاہد ہے۔دینی اور انقلابی تحریکوں کی مثال رواں و جاری و ساری دریا کی سی ہے۔ان کی بقا و ترقی کا اہم اصول یہ ہے کہ وہ مسلسل نہ صرف حرکت میں رہیں بلکہ مسلسل آگے بڑھتی رہیں۔اگر وہ تھوڑی دیر کے لیے رک جائیں تو فوراً تنزل و پسپائی شروع ہو جائے گی۔کیونکہ تحریک کا لفظ بتاتا ہے کہ وہ مسلسل اور موقع و مناسبت سے آگے بڑھتی رہیں اور مسلسل حرکت اقدامی کرتی رہیں۔
اسلامی،اصلاحی اور دعوتی تحریکوں کی آب یاری کے لیے چار ذرائع نہایت اہم اور اساسی ہیں ان میں کسی ایک سے رو گردانی نہیں کی جاسکتی۔ایک کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کی روشنی میں تحریک کی پیش قدمی۔ کتاب و سنت کا نہ صرف مطالعہ کرنا بلکہ اس پر عمل کرنا اور اس کی روشنی میں سفر طے کرنا۔دوم خود اپنی زندگی کا ایک حصہ تحریک کے لیے وقف کردینا۔تحریک کا کارکن کہلانے کا مستحق ہونے کے لیے اپنے وقت کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور صرف کرنا۔ سوم تحریکوں کے ماضی، حال اور مستقبل کو ایک دوسرے سے جوڑناتحریک کا وجود ہے ان میں سے کسی ایک جز کو نکال دیا جائے تو تحریک کا وجود ہی خطرے سے دو چار ہو جاتا ہے۔چہارم اس راہ کے ہم سفر وں سے تعلق جوڑنا اور اس راہ کے بزرگوں اور اکابرین کے اسوہ سے قوت حاصل کرنا،اُن کی عزیمت و ہمت،حق گوئی و حق جوئی سے سبق حاصل کرنا،اُن کی قربانیوں اور مشقتوں سے اپنی ہمت بڑھانا،اُن کی زندگیوں اور کردار کو سامنے رکھ کر منزل کی جانب سفر کرنا۔
ماضی،حال اور مستقبل کے تسلسل کو قائم و دائم رکھنے کے لیے اُن مردان کار اور تحریکی رہنماؤں،قائدین کا تذکرہ اور اُن کے سوانح،اُن کی تحریکی زندگی کا خاکہ ہمارے سامنے ہونا چاہیے۔ آج کی نسل نو خیزکو ان سے جوڑنا اور مستقبل میں آنے والوں کو ان کی روشنی سے منور کرنا چاہیے۔بقول مولانا دین محمد منصوری صاحب کے کہ ہم جماعت اسلامی والے شخصیت پرست نہیں ہیں۔لیکن ہمیں محسن فراموش بھی نہیں ہونا چاہیے۔ہمارا معاملہ یہ ہے کہ اپنے بزرگوں اور ساتھیوں کے انتقال پر تعزیتی بیان جاری کر دیتے ہیں اور ایک دو تعزیتی اجلاس کرکے انہیں بھول جاتے ہیں۔ ہمیں اُن کو یاد رکھنے کے لیے اور نئے آنے والوں کو ان کے بارے میں بتانے کے لیے اُن کے بارے میں نشستیں کرنا چاہییں۔
دراز قامت،گندمی رنگت،سرپر جناح کیپ اور چہرے پر مسکراہٹ مولانا جان محمدعباسی مرحوم کی شناخت ہے۔مولانا جان محمد عباسیؒ یکم جنوری 1925 ء کو مولانا غلام رسول عباسی کے گھر گوٹھ بیڑو چانڈیہ میں پیدا ہوئے۔ان کے والد مرحوم اپنے دور کے جیدعالم دین اور حکیم تھے اور بیڑو چانڈیو گوٹھ میں حکمت کے ساتھ دینی مدرسہ بھی چلاتے تھے جہاں دور درازعلاقوں بلوچستان اور ایرانی بلوچستان سے لوگ حصول علم کے لیے آتے تھے۔مولانا جان محمد عباسی مرحوم نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی بعد میں لاڑکانہ میں جہان محمد پور محلے میں سکونت اختیار کی یہاں آپ نے اپنے گاؤں کے پرائمری اسکول میں پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ فارسی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عام رواج کے مطابق صرف ونحو کی تعلیم حاصل کی۔مولانا جان محمد عباسیؒ نے اپنے نابغۂ عصر استاد مولانا علی محمد ؒ سے عربی ادب اور منطق میں استفادہ کیا۔آپ نے عربی، فارسی اور درس نظامی کے جملہ علوم کی تحصیل میںتقریباً گیارہ برس کا عرصہ صرف کیا 1945 ء میں آپ تحصیل علم سے فارغ ہوئے۔اور اپنے والد کے ساتھ اُن کے مطب میں اُن کے ساتھ حکمت کرنے لگے۔
مولانا جان محمد عباسی مرحوم کے والد مولانا غلام رسول عباسی ؒ تحریک خلافت کے سرگرم کارکن تھے۔لاڑکانہ اور اس کے گردو نواح میں اخلاقی برتری و تفوق رکھتے تھے ان کااُٹھنا بیٹھنا لاڑکانہ کی اشرافیہ طبقے سے تھا۔پڑھے لکھے مسلمانوں اور ہندوں سے مجلس ہوتی رہتی تھیں۔مولانا ابتدا ہی سے اپنے والد کے زیر سایہ رہتے تھے اس لیے اصحاب ثروت، سیاست دانوں اور علماء سے ان کا واسطہ رہتا تھا۔سیاسی شعور یہیں سے پیدا ہوا۔ آپ کی گفتار و کردار پر ان مجالس کا گہرا اثر ہوا۔آپ جماعت اسلامی میں شمولیت سے پہلے خلافت تحریک، جمعیت علماء ہند، کانگریس اور مسلم لیگ میں شامل رہے۔
تقسیم ہندوستان سے قبل کوئٹہ میں ایک بزرگ کے مہمان خانہ میں ایک پرائمری اسکول ٹیچر عبدالرحیم صاحب جماعت اسلامی کا کچھ لٹریچر چھوڑ جاتے تھے۔اس لٹریچر کے ذریعہ مولانا جان محمد عباسی مرحوم کا جماعت اسلامی سے تعارف ہوا۔1950ء میں کوئٹہ میں جماعت اسلامی کے احباب سے شناسائی ہوئی۔تحریکی رفقاء سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی گرفتاری کے سلسلے میں خاموش مظاہرے کرتے تھے آپ نے ایسے مظاہروں میں بھی شرکت کی۔عباسی صاحب مولانا مودودیؒ کی مشہور کتاب خطبات سے متاثر ہوئے۔اس سلسلہ میں آپ نے فرمایا مجھے خطبات نے اس لحاظ سے زیادہ متاثر کیا تھا کہ مسلمانوں میں تھوڑی بہت تعلیم بھی ہے نماز، روزہ، حج اور زکواۃ کے فرائض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ اُمت مسلمہ انحطاط کاشکار ہے اور دنیا کی امامت کا منصب اس سے لے لیا گیا ہے۔بلکہ محکوم ہو گئے ہیں۔اس سوال کا تسلی بخش جواب آپ کو خطبات سے ملا۔مولانا مودودیؒ کے اس استدلال نے آپ کو بہت متاثر کیاچونکہ یہاںمکمل اسلامی نظام قائم نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ جس چیز کے کچھ اجزاء غائب ہو جائیں تو وہ چیز اپنا اثر نہیں دیکھاتی۔اس ضمن میں سید مودودیؒ نے گھڑی کی مثال دی کہ اس کا کوئی پرزہ نکال دیا جائے تو گھڑی وقت نہیں بتائے گی۔
جان محمد بھٹو ؒ اور مولاناجان محمد عباسیؒ ایک ہی استاد کے شاگرد تھے۔جان محمد بھٹو صاحب نے ان سے کہا کہ آپ جماعت اسلامی کی باتیں پسند کرتے ہیں آپ کو رفقاء جماعت اسلامی کے کردار اور گفتار پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے تو پھر آپ جماعت اسلامی میں شامل ہو کر اس کے نظام کا حصہ بن کر کام کریں۔آپ بھٹو صاحب کی دعوت پر جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔1954 ء میں رکن جماعت بننے اور اسی دن شہر اور ضلع لاڑکانہ کے امیر منتخب ہوئے۔شدید بیماری کے باعث 1956 سے 1958ء تک رخصت پر رہے۔
1965میں بنیادی جمہوریتوں بی ڈی انتخابات ہوئے تو اس وقت ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے عروج کا زمانہ تھا عباسی صاحب بی ڈی میں کامیاب ہوئے اور انہیں ضلع کونسل میں دوبارہ نامزد کیا گیا۔آپ 1962 سے 1968 تک جماعت اسلامی خیر پور ڈویژن کے امیر رہے۔1968 میں حیدر آباد اور خیرپور ڈویژن کو ملا کرحلقہ سندھ بنایا گیااور مولانا جان محمد عباسی ؒ کو اس کے امیر کی ذمے داری سونپی گئی۔1968سے1970تک آپ نے اسی حیثیت میں جماعت اسلامی کے پیغام اور اس کی تنظیم کو آگے بڑھایا۔1970 میںون یو نٹ توڑ دیا گیا اور صوبہ سندھ کا صوبائی نظام قائم ہوا۔آپ 1997ء تک امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ کے فرائض انجام دیتے رہے۔آپ 28 اپریل 2003ء تک نائب امیرجماعت اسلامی پاکستان بھی رہے۔
مولانا جان محمد عباسی ؒ چونکہ علمی و دینی اور سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے انہوں نے ہمہ جہت تحریکی و سیاسی کام کیے۔مولانا عباسی نے اپنی نگرانی میں اخبار نامہ الوحید حیدر آباد سے 1969 میں جاری کیا۔یہ اخبار تین سال تک چلا۔مولانا جان محمد عباسی روز نامہ جسارت کے مالیاتی اُمور کے انچارج تھے آپ نے اس کے ملتان ایڈیشن کے اجراء میں بڑی مدد کی۔ مولانا جان محمد عباسی نے سندھی ادب میں کام کرنے کے لیے محمد بن قاسم سندھی ادبی سوسائٹی قائم کی۔آپ اس کے تیرہ سال تک سرپرست اعلیٰ رہے اس سوسائٹی کی طرف سے مولانا سید ابواعلیٰ مودودیؒکی کئی ضخیم کتابوںکے سندھی تراجم شائع کرائے گئے۔آپ نے سندھ لطیف ادبی سوسائٹی کی نبیاد رکھی۔مولانا نے اشاعت اسلام سوسائٹی کراچی قائم کی۔جس نے سندھی اور اُردو کی ایک درجن سے زائد کتابیں شائع کیں۔مولانا جان محمد عباسی ؒ کا ایک بڑا کارنامہ تفہیم القرآن کا سندھی زبان میں ترجمہ اور اس کی طباعت کا اہتمام کرنا ہے۔مولانا جان محمد عباسیؒایک درجن سے زائداداروں کے سربراہ اور رکن رہے۔مولانا جان محمد عباسیؒ نے کئی ممالک کے دورے کیے اور وہاں جماعت اسلامی کی دعوت اور اس کا تعارف پیش کیا۔آپ نے میاں طفیل محمدمرحوم کیساتھ ایران کے انقلاب کے بعدوہاں منعقد ہونے والے بین الاقوامی اجتماع میں شرکت کی اور اسلامی تحریکوں کے سربراہوں سے ملاقات کی۔آپ نے دورہ سعودی عرب کے دوران عالمی سپریم کونسل برائے مساجد کے اجلاس میں میاں طفیل محمد مرحوم ( اس کونسل کے تاسیسی رکن) کے ساتھ بحیثیت مبصر شرکت کی اور عالم اسلام کے ممتاز علماء کرام سے ملاقاتیں کیں۔اس کے علاوہ آپ نے انگلینڈ،امریکا، افغانستان، ترکی اور ڈھاکا کے بھی دورے کیے۔
مولانا جان محمد عباسی مرحوم اپنی ذات میں صبر و تحمل کے پیکر تھے۔آٹھ نو سال بیماری اور تکلیف میں گزارے۔ہفتے میں دو مرتبہ ڈائیلیسس ہو تا تھا لیکن آپ نے کبھی بھی بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیا۔عباسی صاحب کے ایک صاحبزادے نجم الدین عباسی افغانستان میں خوست کے مقام پر جہاد میں شہید ہوئے اُن کی میت کے آنے کے موقع پر مولانا عباسیؒ کا صبر دیکھنے کے قابل تھا۔جو لوگ کہتے ہیں کہ جماعتی قیادت خود قربانیاں نہیں دیتی انہیں مولانا جان محمد عباسیؒ اور مولانا جسٹس غلام علیؒ کی زندگیوں کو دیکھنا چاہیے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اس راہ میں لگائی اور اپنے لخت جگر بھی شہادت کے لیے پیش کیے۔
مولانا جان محمد عباسی مرحوم اعلیٰ ظرف انسان تھے۔اُن کے اعلیٰ ظرف ہونے کی اس مثال سے اندازہ کیجئے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو فوجی عدالت نے ایوان حکومت سے نکال کرجیل کی کوٹھری میں ڈال دیا اور ضیاء حکومت نے ظلم کی داستان کے نام سے ٹی وی پر ایک سیریل شروع کیاجس میں بھٹو دور میں اپنے مخالفین پر رکھے گئے مظالم کو پیش کیا جاتا رہا۔اس سلسلے میں مولانا سے رابطہ کیا گیاکہ وہ 1977ء کے انتخابات میں اپنے اغواء کی داستان بیان کریں۔لیکن مولانا جان محمد عباسیؒ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ بھٹو سے ہمارا اختلاف سیاست کی وجہ سے تھا ان کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد یہ مناسب نہیں کہ ان کے خلاف پروپیگنڈا مہم میں شامل ہو جاؤں جبکہ اسے اپنے دفاع کا موقع بھی نہیں ہوگا۔
مولانا جان محمد عباسی مرحوم کا اندازگفتگو بہت پیارا اور مثالی تھا دھیمی آواز میں ٹھیر ٹھیر کر اور نپے تلے الفاظ میں گفتگو کرتے۔بس سننے والوںکا جی چاہتا کہ مولانا بولتے جائیں اور سامعین سنتے رہیں۔مسکرا کر بات کرتے اور بری سے بری بات اور سخت بات مزاح،مثال و تمثیل سے کہہ جاتے تھے۔رفقاء کے ساتھ اعلیٰ ظرفی اور کشادہ دلی کا برتاؤ کرتے،نہایت خوش خلقی،خندہ پیشانی سے ملتے۔آپ نے کئی سال گردے،دل اورشوگر کی بیماری میں گزارے لیکن صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے۔
مولانا جان محمد عباسیؒ اپنے سیاسی و سماجی پس منظر اور اپنے خاندان کے متعدد افراد کے حکومت کے اچھے عہدوں،ذمے داریوں پر ہونے اور جماعت اسلامی کے صف اول کے رہنما ہونے کی وجہ سے سندھ کی سیاست میں خصوصی اور پاکستان کی سیاست پر عمومی اثر رکھتے تھے۔لہٰذاایک زیرک، دانا اور عقابی نظر رکھنے والے جرأت مند سیاست دان تھے۔سندھ کے تمام سیاسی خاندانوں سے خاص طور پر لاڑکانہ،شکار پور،سکھر اور نواب شاہ اضلاع کے سیاسی خاندانوں سے تعلقات تھے۔اس کے ساتھ ساتھ ان خاندانوں کے پس منظر سے بھی خوب واقف تھے۔ آپ 28اپریل 2003ء کو کراچی میں انتقال کر گئے اور آپ کی تدفین آپ کے آبائی علاقہ لاڑکانہ میں ہوئی۔