رضا باقر-پاکستان کا اصل حکمران

429

جاوید اکبر انصاری
جی ہاں رضا باقر پاکستان کا صل حکمران ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے اس کو پاکستان کا وائسرائے(Viceroy )مقرر کیا ہے اور عمران خان آئی ایم ایف کا تابعدار ہے۔نیولبرل سرمایہ دارانہ نظام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ سیاسی اقتدار حکومت کے ہاتھ سے نکل کرمرکزی بینک (اسٹیٹ بینک )کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔یہ مرکزی بینک حکومتی گرفت سے آزاد کردیئے جاتے ہیں۔آئی ایم ایف کے حالیہ معاہدہ کی ایک کڑی شرط یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کو آزاد کردیا جائے اور اس کے گورنر کی مدت حکمرانی قانونی طور پر تین سال سے بڑھا کر پانچ یا سات سال کر دی جائے۔اسٹیٹ بینک کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکومتی گرفت سے نکل کر عالمی سود اور سٹہ کے بازاروں کا آلہ کا ربن جائے۔عالمی سودی نظام اس طرح سے تشکیل دیا جارہا ہے کہ تمام قومی سینٹرل بینکوں کی کارفرمائی پر محیط ہوتا چلائے جائے۔یہ سرمایہ کی عالمی سیالیت Liquidityکو ممکن بنانے کے لیے ناگزیر ہوتاجارہاہے۔چونکہ عالمی سودی مارکیٹوں کی کارفرمائی کا کوئی تعلق عوامی آرا کے اظہار سے نہیں ہوتا لہذاوہ ممالک جہاں پر سامراج کے آلہ کار سینٹر ل بینک حکومت کرتے ہیں وہاں جمہوری عمل ایک کھیل تماشہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
سینٹرل بینک کے حکومت کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟بنیادی طورپر وہ ایسے قواعد متعین کرتا ہے جو دیومالائی نظریات(Vodoo economics)سے ماخوذ ہیں، اور جن کی بنیاد پر ملکی معیشت کی کارفرمائی متعین کی جاتی ہے یہ وہ قواعد ہیں جو ہرریاست کو سرمایہ کے مفادات کے تحفظ اور فروغ کا ذریعہ بنادینے کے لیے کیے جاتے ہیں۔
جن اصولوں کی بنیادپر اسٹیٹ بینک ہم پر حکومت کررہاہے کہ پاکستان کسی قیمت پر بین الاقوامی سودی قرضوں کی ادائیگیوں سے دستبردای (Default) نہ کرے یہ قرضے مستقلا عوام کے ٹیکسیوں سے ادا کیے جاتے رہیں گے حالانکہ ان قرضوں کو لیتے وقت نہ عوام سے اجازت لی گی نہ ان قرضوں کا ایک پیسہ عوام پر خرچ کیا گیا۔ان قرضوں کا کبھی آڈٹ نہیں ہوا کیونکہ یہ سب قرضہ سامراج کے آلہ کار کھا گئے
دوسرا اصول یہ ہے کہ معاشی پالیسی کی تنفیذ ایسی ہو کہ دولت اور آمدنی کی تقسیم کی نامساویت بڑھتی چلی جائے۔وسائل کم سے کم ہاتھوں میں مرتکز ہوتی چلے جائیں اور بین الاقوامی ترسیل زر کی رفتار تیز سے تیز ہوتی چلی جائے پاکستانی حلال معیشت کا انہدام اس اصول کی کارفرمائی کا ایک لازمی نتیجہ ہے۔
ان اصولوں کی بنیادپر اسٹیٹ بینک ملکی معیشت پر حکومت کررہا ہے اس حکومت کا بنیادی ہتھیار سرمایہ دارانہ زر ہے سرمایہ دارانہ زر کی کوئی حقیقی اساسی قدر(Real asset value)نہیں ہوتی۔نہ چاندی نہ سونا یاکوئی اور شہ،سرمایہ دارانہ بینکاری نظام جتنا چاہے سرمایہ دارانہ زر تخلیق کرسکتا ہے۔پاکستان جیسے ممالک میں جہاں زر کے مارکیٹ کی کارفرمائی قدر محدود ہے اسٹیٹ بینک تخلیق زر کے عمل میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
اسٹیٹ بینک جو سرمایہ دارانہ زر خود تخلیق کرتا ہے اس کو ریز و زر (MO)کہتے ہیں اس میں اضافہ اور کمی اسٹیٹ بینک حکومتی تمسکات (T bills) کی خریدوفروخت کے ذریعہ عمل میں لاتا ہے۔اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک بنیادی شرح سود (Base rate) بھی متعین کرنے کا مجاز ہے اس شرح سود پر بینکاری نظام اسٹیٹ بینک سے قلیل مدت قرضہ لیتے ہیں۔
بالکل جس طرح سرمایہ دارانہ زر کی کوئی اصلی اساس قدر (Real asset value) نہیں ہوتی اس طرح متعین شرح سود کی بھی کوئی اصلی یا فطری شرح نہیں۔تمام معیشت دان اس پر متفق ہیں کہ شرح سود کا تعین ایک جابرانہ اور قیاسی عمل ہے۔فطری شرح سود (Natural rate of interest) کا کوئی وجود نہیں۔اسٹیٹ بینک جو بنیادی شرح سود (Base rate) نافذ کرنا چاہے وہ کرسکتا ہے
آئی آیم ایف نے رضا باقر کو حکم دیا ہے کہ
٭بنیادی شرح سود کو اونچا رکھے۔
٭ریزرومنی (MO) کے اجرا کو محدود کرے۔
٭اسٹیٹ بینک حکومت کو قرضہ دینا بالکل ختم کر دے۔
٭بین الاقوامی ترسیل زر کو آسان سے آسان تر بنادے۔
٭روپے کے شرح تبدل کے عمل میں ایک بالکل غیر جانبدار فریق بن جائے۔
رضاباقر ان پالیسیوں پر شدت سے عمل پیرا ہے۔اس نے نومبر 2019 میں بنیادی شرع سود(Base rate ) کو 13.5فیصد سے کم نہ کیا جوکہ دنیا میں اونچی ترین شرح سود ہے۔اسٹیٹ بینک نے حکومت کو قرضے دینا بجٹ سپورٹ کے لیے بالکل بند کردیئے اور ریزرو منی کا اجرا محدود کردیا اور عالمی زر کے مارکیٹوں میں روپیہ کے تحفظ سے تقریبا بالکل ہاتھ کھینچ لیا ہے۔
یہ زری پالیسی پاکستانی معیشت کو بے اندازہ نقصان پہنچا رہی ہے لیکن آئی ایم ایف کا وائسرائے اپنے آقا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ملک کو تباہ کیے جارہاہے۔خود آئی ایم ایف نے کہاکہ ان پالیسیوں کے نفاذ کے نتیجہ میں ملکی پیدوار میں شرح نمو اس سال صرف 2فیصد رہ جائے گی (بھارت کی 5.5فیصد چین کی 6فیصد ایران کی 6.3فیصد ) پورے ملک میں فیکٹریاں بند ہورہی ہیں حلال معیشت کا گلا گھونٹاجارہاہے۔تورم (inflation) ہوشربا حدتک بڑھ گیا ہے۔بیروزگاری عروج پر ہے ملکی قرضہ جات کم نہیں ہورہے ہنوز بڑھ رہے ہیں تقسیم آمدنی اور دولت کی تقسیم غیر مساویانہ تر ہوتی جارہی ہے۔سامراج کی باجگزاری کا رحجان ترقی پزیر ہے۔
یہ سب رضا باقر اور اس کی زری پالیسی کا منطقی نتیجہ ہے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ آئی ایم ایف سے کیا گیا EFF معاہدہ فی الفور منسوخ کیا جائے اور آئی ایم ایف کے وائس رائے رضا باقر کو فی الفور معطل کرکے اس کے آقاؤں کے پاس واپس واشنگٹن بھیجا دیا جائے۔