مہنگائی لے کے آیا سورج نئے برس کا

155

عمران خان نیازی کی حکومت نے نئے سال کا آغاز مہنگائی کی سلامی سے کیا ہے ۔ گیس ، بجلی ، پٹرول جیسی بنیادی اشیاء کے نرخ فوری طور پر بڑھا دیے گئے ہیں ۔ اس کے نتائج ہر شے کی قیمت پر ظاہر ہونے لگے ہیں ۔ آٹا ، دال ، چاول ، سبزیاں اور پھل ہر چیز ہی مہنگی ہوگئی ہے جبکہ چینی جیسی شے جو ملک میں وافر مقدار میں موجود ہے ، محض قیمت میں اضافے کے لیے مارکیٹ سے غائب کردی گئی ہے ۔عمران خان نیازی کی جانب سے مہنگائی میں بے محابا اضافے کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو اس بات کی اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ اپنے صارفین سے نہ صرف فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز وصول کریں بلکہ اس کااطلاق گزشتہ چار سال پہلے کے نرخوں پر کرکے ان کے بقایا جات بھی اپنے صارفین سے وصول کریں ۔ اس پر حسب سابق حزب اختلاف کے رہنماؤں نے اختلافی بیان جاری کیے ہیں اور اسے عوام دشمن اور عوام قاتل قرار دیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام ہی سرکاری ادارے محض ایک سطری بیان جاری کرتے ہیں کہ بجلی ، گیس یا پٹرول کی قیمت میں اتنا اضافہ کردیا گیا ہے۔ کوئی یہ بتانے کو راضی نہیں ہے کہ بجلی ، گیس یا پٹرول کی فی یونٹ لاگت کیا ہے اور اس لاگت کا تخمینہ لگانے کا طریقہ کار کیا ہے ۔ اسی طرح سیاہ و سفید میں یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ قیمت میں اضافے سے حکومت کے ریونیو میں کتنا اضافہ ہوگا اور ان کی تقسیم کار کمپنیوں کو کتنا فائدہ ہوگا ۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا حکومت کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا ۔ گیس کی آمدنی میں سے حکومت کو محض اٹھارہ تا بائیس فیصد رائلٹی ملتی ہے جبکہ بقیہ گیس نکالنے والی اور اسے تقسیم کرنے والی کمپنیوں کا حصہ ہوتا ہے ۔ کے الیکٹرک جیسی کمپنی نجی شعبے کی ملکیت ہے اور اس میں حکومت کے پاس تقریبا 25 فیصد ہی حصص ہیں اور اسے حصہ بھی اتنا ہی ملتا ہے ۔ پٹرول میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام کا خون نچوڑ کر حکومت کے حصے میں کیا آتا ہے ۔اگر حکومت کو اپنی آمدنی میں اضافہ ہی مطلوب ہے تو بہتر ہے کہ وہ ٹیکس لگائے تاکہ جو کچھ عوام قربانی دیں ، وہ کم از کم حکومت کے خزانے میں تو جمع ہو ۔ بجلی ، گیس اور پٹرول کے نرخوں میں اضافے سے تو حکومت کو کچھ حاصل نہیں ہوتا مگر عوام کا حشر نشر ہوجاتا ہے ۔ حال ہی میں بجلی کی نرخوں میں اضافے کی جو منظوری دی گئی ہے ، اس کے مجموعی اثرات کا اندازہ ساڑھے چودہ ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں سے حکومت کو چند ارب روپے ہی مل پائیں گے ۔ اس کے مقابلے میں یہ کمپنیاں ٹیکس کی جس پیمانے پر چوری کررہی ہیں ، اگر اسے ہی وصول کرلیا جائے تو پھر حکومت کو یہ پھرتیاں دکھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2018 تک بجلی اور کھاد پیدا کرنے والی کمپنیوں پر ٹیکس کی مد میں 750 ارب روپے واجب الادا تھے جنہیں عمران خان نیازی نے گزشتہ برس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے خاموشی سے معاف کردیا ۔ مہنگائی اور گرانی کی جتنی ذمہ داری عمران خان نیازی پر عاید ہوتی ہے ، اتنی ہی ذمہ دار حزب اختلاف کی پارٹیاں بھی ہیں ۔ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام کی ساری کوششیں حکومت کے خلاف مہم چلانے اور اپنے قائدین کو قانون کی گرفت سے بچانے پر مرتکز رہی ہے ۔ کسی ایک بھی پارٹی نے نہ تو کوئی شیڈو وزارت تشکیل دی ہے اور نہ ہی سرکاری اقدامات کا پوسٹ مارٹم کرنے کی زحمت کی ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ حکومتوں کا چہرہ تو تبدیل ہوجاتا ہے مگر بنیادی ٹیم وہی رہتی ہے ۔ اب پیپلزپارٹی کس طرح سے موجودہ حکومت کے معاشی قتل عام کا پوسٹ مارٹم کرسکتی ہے کہ اس کی پوری ٹیم ہی موجودہ حکومت کے سیٹ اپ میں موجود ہے ۔ اسی طرح ن لیگ بھی خاموش رہنے پر مجبور ہے کہ حقائق سامنے آنے پر اس سے بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ مافیا کو نوازنے کے لیے اس نے کیوں گیس ، پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کیا ۔ افسوسناک بات یہ ہے کوئی ایک بھی جماعت ایسی نہیں ہے جو ٹھوس بنیادوں پر کام کرے اور میگا اسکینڈل پر قرطاس ابیض عوام کے سامنے لائے ۔ آج کے دور میں گزشتہ بیس برسوںکے مقابلے میں بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے اور احتجاج اور مظاہروں کے ساتھ ساتھ عوام کو دلائل بھی درکار ہوتے ہیں ۔ یہ سیاسی پارٹیاں کروڑوں روپے تو اپنے ایک جلسے پر خرچ کردیتی ہیں مگر چند لاکھ روپے ماہانہ کے خرچے سے ایک تحقیقاتی سیل بنانے پر تیار نہیں جہاں سے وہ عوام کے سامنے درست تصویر پیش کرسکیں ۔ جس دن حزب اختلاف نے موثر حقیقی حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا شروع کردیا ، اسی دن سے ملک کے عوام کو درست سمت بھی مل جائے گی اور ملک کے مسائل کے حل کی امید بھی پیدا ہوگی ۔