پنٹاگون، راولپنڈی تجدید ِ تعلق کا آغاز

226

انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پروگرام کے تحت امریکا اور پاکستان میں فوجیوں کی تربیت کا سلسلہ شروع کرنے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ گویا کہ اب پاک فوج کے افسر پیشہ ورانہ تربیت اور تعلیم کے لیے دوبارہ امریکی عسکری اداروں کا رخ کر سکیں گے۔ امریکا نے یہ فیصلہ اس وقت کیا کہ جب پاکستان اور روس کے درمیان بھی اسی نوعیت کا معاہدہ ہوئے چند ہی ہفتے گزرے ہیں۔ جس کے تحت اب پاکستان کے فوجی افسر رشین ڈیفنس سینٹر میں تربیت حاصل کرسکیں گے۔ روس اورپاکستان کی فوجوں کے درمیان یہ ’’ابتدائے عشق‘‘ کا مرحلہ ہے وہیں پاکستان اور امریکا کی فوجوں کے درمیان ٹوٹے ہوئے تعلق کی تجدید کا یہ انداز اس شعر کے مصداق ہے ؎
ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں
افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا پنٹاگون میں سرخ قالین بچھا کر کیا جانے والے شاندار استقبال تجدید تعلقات کی خواہش کی چنگاری کے شعلہ بننے کا نقطۂ آغاز تھا۔ امریکا نے ایک عشرے سے زیادہ عرصہ قبل پاکستانی فوجیوں کے لیے یہ سہولت ختم کر دی تھی۔ یہ نائن الیون کے بعد کا وہ زمانہ تھا جب امریکی فوج افغانستان میں حتمی فتح حاصل کرنے کے لیے طالبان سے مصروف جنگ تھی اور جنوبی ایشیا میں بھارت کو ایک بڑا رول سونپ کر خطے کی چوکیداری اور تھانیداری کا کام بھی اسی کو سونپا جا رہا تھا۔ امریکی دفاعی ماہرین کا خیال تھا کہ افغانستان میں اس کی فوج کے قدم اکھڑنے اور مسلسل پسپا ہوجانے کے پیچھے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے لیے پاکستان کی حمایت اور پاکستانی علاقوں میں ان کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ حقانی نیٹ ورک اس وقت خوف ودہشت کی علامت تھا اور اس کی تخلیق اور کارروائیوں کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے کا رجحان عام تھا۔ بھارت اور امریکا جہادی قوتوں کے مشترکہ خطرے کے احساس کی ڈور میں بندھے ہوئے تھے۔ اس طرح بہت سے امریکی تھنک ٹینک سرکاری شخصیات اور میڈیا کا ایک طاقتور حصہ پاکستانی فوج کو جہادی فوج اور جہادیوں کی معاون وسرپرست فوج ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا۔ اسی سوچ وفکر نے سلالہ میں پاک فوج کی چوکی پر حملے تک بات پہنچادی تھی۔ جب امریکی جنگی جہازوں نے پاک فوج کی ایک بڑی چوکی کو جس پر پاکستان کا پرچم بھی لہرا رہا تھا فضائی بمباری کا نشانہ بنا کر درجنوں فوجیوں کو شہید کیا تھا۔ یہ افغانستان میں پسپائیوں کی راہوں پر گامزن امریکی فوج کی فرسٹریشن کی انتہا تھی۔ اس کے ردعمل میں پاکستان نے ناٹو سپلائی بند کر کے امریکی اور ناٹو فوج کو شدید معاشی مشکلات میں ڈال دیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان اور امریکا دو مخالف اور دشمن ملکوں کی سی شناخت کے ساتھ سامنے آرہے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دشمنی اور مخاصمت کی یہ کیفیت باقی نہ رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا نے یہ حقیقت جان لی کہ وہ افغانستان کو طاقت کے زور پر فتح نہیں کر سکتا اور اس ملک سے باعزت انخلا کے لیے بات چیت ہی واحد راستہ ہے۔
دوسری حقیقت جس کا امریکا کو ادراک ہوا یہ تھی کہ پاکستان افغانستان میں مسئلہ نہیں بلکہ مسئلے کا حل ہے اور پاکستان کو اس مسئلے سے الگ کرکے حل نکالنا کاردارد ہے۔ جو تیسری حقیقت جس کا امریکا کو احساس ہوا کہ وہ یہ تھی کہ امریکا خود پاکستان کا امریکا تو ہے مگر وہ بھارت کو پاکستان کا ’’امریکا‘‘ تسلیم نہیں کرتا اور اس کوشش کی نہ صرف مزاحمت کرتا ہے بلکہ اس پر ردعمل بھی ظاہر کرتا ہے۔ ان ساری زمینی حقیقتوں کا ادراک کرنے کے بعد پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے ٹوٹے ہوئے تار جوڑنے کا عمل شروع ہو گیا۔ اس عرصے میں امریکا کو بھی یہ احساس ہوا کہ پاکستان کی بارسوخ فوج کے ساتھ تربیت اور تعلیم کے نام پر تعلقات منقطع کرکے اس نے ایک خلا اور بحران کو جنم دیا ہے۔ اب فوج میں وہ لوگ باقی ہی نہیں رہے جو امریکا اور اس کے سسٹم کو سمجھتے ہیں اور اس کا مشاہدہ رکھتے ہیں۔ اس طرح امریکا اور پاکستان کی افواج کے درمیان اجنبیت کا احساس امریکیوں میں بہت تیزی سے پھیل رہا تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر جس حقانی نیٹ ورک کی حمایت کے الزام میں پاکستان کے ساتھ فوجی روابط ختم کیے گئے تھے اس حقانی نیٹ ورک کے اہم رکن انس حقانی کے ساتھ اب امریکی نمائندے خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ گویا اب بڑی حدتک دوستی اور دشمنی کے معیار اور پیمانے بھی بدل گئے ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کا دورہ ٔ پنٹاگون اور وہاں ان کا شاندار استقبال اس بات کا پتا دے رہا تھا کہ پاکستان اور امریکا میں ملٹری ٹو ملٹری تعلقات کا احیاء اب دنوں کی بات ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان تعلقات کی بحالی کے خطے کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان کے لیے امریکا کے ساتھ زیادہ تعلقات کسی اچھائی کا باعث نہیں رہے بلکہ ان تعلقات کی بنیاد پر امریکا نے ہمیشہ پاکستان پر اپنی کمند پھینکنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی حکومتی اور ریاستی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کیا ہے۔ ماضی میں امریکا پاکستان کے فوجی حکمرانوں کا بہترین دوست رہا ہے اور ان حکمرانوں نے امریکا کی بھرپور خدمت کی ہے فوج کے ساتھ کھٹ پٹ شروع ہونے کے بعد امریکا نے سویلین حکمرانوں کو فوج کے مقابل مضبوط کرنے اور پنے پروں تلے چھپانے کی پالیسی اپنائے رکھی مگر پاکستان میں طاقت کے کھیل کی نوعیت کے باعث یہ پالیسی زیادہ کارگر نہیں رہی۔ اس لیے پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعلقات استوار اور بحال کرتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔