پوپ فرانسس نے کرسمس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ خدا بدترین لوگوں سے بھی محبت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دنیا کی اصلاح کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کرنی ہوگی۔
عیسائیت کئی صدیوں سے داخلی بحران کا شکار ہے۔ پوپ عیسائیت کی سب بڑی شخصیت مگر پوپ فرانسس کی اس بات کی تردید کے لیے انجیل کی دو آیات کا حوالہ کافی ہے کہ خدا بدترین لوگوں سے بھی محبت کرتا ہے۔ انجیل کی ایک آیت ہے۔ ترجمہ’’پس تم اس طرح دُعا مانگا کرو کہ اے ہمارے باپ تو دو آسمان پر ہے۔ تیرا نام پاک مانا جائے، تیری بادشاہت آئے۔ تیری مرضی جیسے آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔‘‘ (متی 10-916)
انجیل کی دوسری آیت ہے۔ سیدنا عیسیٰ فرما رہے ہیں۔ یہ نہ سمجھو میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں۔ صلح کرانے نہیں تلوار چلوانے آیا ہوں۔ میں اس لیے آیا ہوں کہ آدمی کو اس کے باپ سے اور بیٹی کو اس کی ماں سے اور بہو کو اس کی ساس سے جدا کردوں۔ اور آدمی کے دشمن اس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے جو کوئی ماں باپ کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں اور جو کوئی اپنی صلیب نہ اٹھائے اور میرے پیچھے نہ چلے وہ میرے لائق نہیں۔ جو کوئی اپنی جان بچاتا ہے اسے کھوئے گا اور جو کوئی میرے سبب اپنی جان کھوتا ہے اسے پائے گا۔‘‘ (متی۔ 39-34110)
جیسا کہ ظاہر ہے ’’اصل عیسائیت‘‘ ان آیات میں بیان ہوئی ہے۔ پوپ فرانسس نے جو کچھ فرمایا ہے وہ چرچ کی ’’خود ساختہ‘‘ عیسائیت ہے۔ انجیل کا خدا کہہ رہا ہے کہ تم دعا کرو کہ میری مرضی جس طرح آسمان پر پوری ہوتی ہے اسی طرح زمین پر بھی پوری ہو۔ یعنی خدا کا قانون جس طرح آسمان پر چل رہا ہے اسی طرح خدا کا قانون اس کے نبی کا لایا ہوا دین زمین پر بھی حاکم ہو۔ پوپ فرانسس فرمارہے ہیں کہ خدا کو انسان کے اچھا برا ہونے سے کوئی غرض ہی نہیں۔ انسان، انسان ہو یا شیطان خدا سب سے محبت کرتا ہے۔ انسان سے بھی شیطان سے بھی۔ سیدنا عیسیٰؑ انجیل کی دوسری آیت میں فرمارہے ہیں کہ میں دنیا میں صلح کرانے نہیں بلکہ حق و باطل کی بنیاد پر تلوار چلوانے آیا ہوں۔ پوپ فرانسس کہہ رہے ہیں کہ خدا اس سے بھی محبت کرتا ہے جو حق پر ہے اور اس سے بھی محبت کرتا ہے جو باطل پر ہے۔ یہ بھی ’’اوریجنل عیسائیت‘‘ نہیں ہے یہ بھی چرچ کی ’’خود ساختہ عیسائیت‘‘ ہے۔
غور کیا جائے تو عیسائیت کے پیدا کردہ سارے مائل اور اس کا داخلی بحران ’’خود ساختہ عیسائیت‘‘ ہی کا شاخسانہ ہے۔ 1095 میں پوپ اربن دوم نے فرمایا کہ معاذ اللہ اسلام ایک شیطانی مذہب ہے اور اس کے ماننے والے ایک شیطانی مذہب کے ماننے والے ہیں۔ پوپ نے کہا کہ میرے قلب پر یہ بات القا کی گئی ہے کہ عیسائیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو روئے زمین سے فنا کردیں۔ بدقسمتی سے عیسائی دنیا میں پوپ اربن دوم کی بات کو ’’حق‘‘ مانا اور 1095 میں تمام عیسائی اقوام ایک صلیبی جھنڈے تلے جمع ہوئیں اور ان صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو کم و بیش دو سو سال تک جاری رہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو پوپ کے مذکورہ بالا خیالات ’’خودساختہ عیسائیت‘‘ ہی کا شاخسانہ تھے۔ خود عیسائیت کی تعلیمات میں ان کی کوئی سند موجود نہ تھی مگر ’’خود ساختہ عیسائیت‘‘ دیکھتے ہی دیکھتے ’’اصل عیسائیت‘‘ پر غالب آگئی اور لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کا خون پی گئی۔
ہمیں یاد ہے 2009ء میں ایک بار پھر وقت کے پوپ بینی ڈکٹ شش دہم نے ’’خود ساختہ عیسائیت‘‘ کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ انہوں نے 14 ویں صدی کے عیسائی بادشاہ مینوئل دوم کا ایک بیان دہرایا۔ اس بیان میں مینوئل دوم نے کہا تھا کہ کوئی بتائے محمدؐ کیا نیا لائے ہیں سوائے اس بات کے کہ انہوں نے تلوار کے زور پر اپنا عقیدہ پھیلایا۔ عیسائی رسول اکرمؐ کو نبی تسلیم نہیں کرتے اور ان کا خیال ہے کہ معاذ اللہ قرآن آسمانی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ رسول اکرمؐ کی تصنیف ہے اور انہوں نے توریت اور انجیل کی تعلیمات کو نیا دین بنا کر پیش کیا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس کی ’’اصل عیسائیت‘‘ سے تصدیق نہیں ہوتی۔ توریت اور انجیل میں رسول اکرمؐ کی آمد کی اطلاع موجود ہے مگر یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی اصل کو فراموش کرکے رسول اکرمؐ کے بارے میں خود ساختہ نظریات کو ’’اصل عیسائیت‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ اس طرح انہوں نے ایک ’’افسانے‘‘ کو ’’حقیقت‘‘ پر غالب کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا۔
عیسائیت کی تاریخ کی ممتاز شخصیات نے ’’خود ساختہ عیسائیت‘‘ کے تحت صرف اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ظلم نہیں کیا انہوں نے خود اپنے مذہب اور اپنی تاریخ کو بھی مسخ کرکے رکھ دیا۔ مارٹن لوتھر ایک پکا عیسائی تھا مگر اس نے عیسائیت کی اصلاح کی تحریک برپا کردی۔ اسی تحریک کے تحت انجیل کے کئی ابواب کو یہ کہہ کر انجیل سے نکال دیا گیا کہ یہ ابواب ’’خلاف عقل‘‘ ہیں۔ اسی طرح عیسائیوں نے اپنی آسمانی کتاب کو خود ’’غیر مستند‘‘ بنادیا۔ اس کے نتیجے میں ایک انجیل دو انجیلوں میں ڈھل گئی۔ اب ایک انجیل پر کیتھولک فرقے کی مہر لگی ہوئی ہے اور دوسری انجیل پر پروٹسٹنٹ فرقے کی مہر لگی ہوئی ہے۔ مارٹن لوتھر نے کہا کہ خدا اور انجیل کے درمیان پوپ کی موجودگی کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم خود انجیل پڑھیں گے اور خود سمجھیں گے۔ ہم انجیل کی تعبیر کے سلسلے میں پوپ کی تعبیر کے محتاج اور پابند نہیں۔ اس صورتِ حال نے انجیل کی تعبیر کے عمل کو بازیچہ اطفال بنادیا۔ ہم جانتے ہیں کہ میر، غالب اور اقبال کی شاعری کی صحیح تفہیم کے لیے ہمیں ماہر میریات، ماہر غالبیات اور ماہر اقبالیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک شاعر کی شاعری ماہر کے بغیر ٹھیک طرح نہیں سمجھی جاسکتی تو آسمانی کتاب کو کسی ماہر کے بغیر کس طرح ٹھیک ٹھیک سمجھا جاسکتا ہے؟ بہرحال اس صورتِ حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ میں عیسائیت کی ’’اصلاح‘‘ کی تحریک بالآخر عیسائیت کے ’’انکار‘‘ پر منتج ہوئی۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں موجود مغرب زدگان بھی اسلام کی ’’اصلاح‘‘ چاہتے ہیں۔
آج سے بارہ سال پہلے کیتھولک فرقے کے روحانی مرکز ویٹی کن میں عیسائی ’’علم کلام‘‘ کے ماہرین کا خصوصی اجلاس ہوا۔ اجلاس کا مقصد Limbo پر غور کرنا اور اسے بالآخر ختم کرنا تھا۔ Limbo دراصل عیسائیت کی تاریخ کا ایک تصور تھا۔ اس تصور کے تحت عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ ایسے بچے جو بپتسمہسے قبل مرجاتے ہیں وہ نہ جنت میں جاتے ہیں نہ دوزخ میں بلکہ وہ Limbo میں چلے جاتے ہیں۔ عیسائیت کو Limbo کے تصور پر نظرثانی کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ معصوم بچے انتقال کے بعد سیدھے جنت میں جاتے ہیں۔ چناں چہ ایشیا اور افریقا میں عیسائی مشنریوں کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ جب وہ عیسائیت کے پیروکاروں کو یہ بتاتے ہیں کہ معصوم بچے مرنے کے بعد نہ جنت میں جاتے ہیں نہ دوزخ میں بلکہ وہ Limbo میں جاتے ہیں۔ تو یہ بات بچوں کے والدین کے لیے روحانی اذیت کا سبب ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مسلم والدین اپنے بچوں کے انتقال پر یہ سوچ کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ان کے بچے جنت میں گئے ہیں۔ چناں چہ عیسائی علم کلام کے ماہرین نے اسلام کے مقابلے کے لیے 800 سال پرانا Limbo کا عقیدہ بدل ڈالا۔ اب کیتھولک فرقے کا عقیدہ بھی یہ ہے کہ بچے انتقال کے بعد سیدھے جنت میں جاتے ہیں۔
عیسائیت کے داخلی بحران کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ انہوں نے جدید سائنس اور سائنس دانوں کے سلسلے میں افراط و تفریط کا مظاہرہ کیا۔ ایک وقت تھا کہ عیسائیت جدید سائنس کو رد کررہی تھی اور سائنس دانوں کو ان کے نظریات کی وجہ سے سخت سزائیں دے رہی تھی اور ایک وقت یہ ہے کہ عیسائی دنیا نے ہم جنس پرستی تک کو گلے لگالیا ہے اور مغربی دنیا میں ہم جنس پرست پادری بھی دستیاب ہونے لگے ہیں۔ ہم جنس پرست پادریوں کی ’’قبولیت‘‘ بھی ’’خود ساختہ عیسائیت‘‘ کا حاصل ہے۔
ہمیں یاد ہے پوپ بنی ڈکٹ شش دہم نے یورپی معاشروں کو God Less معاشرے قرار دیا تھا۔ موجودہ پوپ فرانسس پوپ بنے تھے تو انہوں نے یورپ کی نوجوان نسلوں کو روحانی اعتبار سے Lost generations یا ’’گمشدہ نسلیں‘‘ قرار دیا تھا۔ دیکھا جائے تو عیسائیت کے داخلی بحران کی اصل وجہ یہ ہے کہ عیسائیت کے پاس آسمانی کتاب انجیل کا ’’اصل متن‘‘ یا Original Text بھی موجود نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انجیل موجودہ حال میں خدا کا کلام یا Word of God نہیں ہے۔ ایک بار پوپ بینی ڈکٹ شش دہم سے کسی نے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مفاہمت ممکن ہے؟ پوپ نے کہا نہیں۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ مسلمانوں کے دعوے کے مطابق ان کے پاس قرآن مجید کی صورت میں Word of God موجود ہے۔ پوپ فرانسس کا خیال ہے کہ ہمیں دنیا کی اصلاح کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کرنی ہوگی۔ لیکن جب عیسائیت اپنے سوا کسی مذہب کو Orignal نہیں مانتی تو دنیا کی اصلاح کے لیے کس طرح متحد ہو کر جدوجہد کی جائے گی۔