جاڑا، دھند اور سیاسی موسم

162

دسمبر کے اوائل تک ہم خوشگوار اور پُرلطف سردی کا مزا لے رہے تھے کہ لگاتار کئی دنوں کی بارش اور پڑوس (مری و گلیات) میں برفباری کے سبب جاڑے نے پہاڑوں سے اُتر کر آ دبوچا اور ہمارا جاڑے سے پالا پڑ گیا لیکن جاڑا اور پالا دونوں ہمزاد اور ہم معنی الفاظ ہیں۔ پنجاب میں مثل مشہور ہے کہ ’’آئی بسنت پالا اڑنت‘‘ بسنت سے مراد موسم بہار ہے جب درختوں پر شگوفے پھوٹتے ہیں، سبزے پر نکھار آتا ہے، پھول کھلتے ہیں، پھولوں کے بادشاہ گلاب پر جوبن آتا ہے اور ہوا پر ایک نشہ سا طاری ہوجاتا ہے لیکن ابھی بسنت آنے میں بہت دن پڑے ہیں، جاڑا اپنے عروج پر ہے، ہاتھ پائوں ٹھٹھر رہے ہیں، سورج بھی نکلتا ہے تو ٹھٹھرتا ہوا نکلتا ہے اور صبح دس بجے سے پہلے اس کی کرنوں میں وہ شوخی نہیں ہوتی جسے سمیٹنے کے لیے ہمیں بارہ بجے کا انتظار کرنا پڑتا ہے، دن کے بارہ بجے سے شام چار بجے تک دھوپ چمکتی ہے اور دھوپ کی سنہری کرنیں کیا غریب کیا امیر سب کو نوازتی ہیں اور جاڑے کے ستائے سب لوگوں کو یکساں فیض پہنچاتی ہیں، اگر قدرت کی مہربانی نہ ہو تو خزانہ لٹانے کے باوجود مٹھی بھر دھوپ میسر نہیں آسکتی۔ اس کا اندازہ یورپ کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے جو موسم سرما کے دوران برفانی طوفان میں گھر جاتا ہے، وہاں دس بارہ فٹ برف پڑنا معمول کی بات ہے، سورج مہینوں نہیں نکلتا، اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ سورج طلوع ہی نہیں ہوتا اگر ایسا ہو تو پورا یورپ ٹھٹھر کر مرجائے اور وہاں زندگی کے آثار ہی باقی نہ رہیں۔ سورج یورپ میں بھی ہر روز باقاعدگی سے طلوع ہوتا ہے اور غروب ہوتا ہے لیکن موسم میں شدید دُھند، کُہر اور برفباری کی وجہ سے اپنی چہرہ نمائی نہیں کرپاتا، البتہ جب کبھی کبھار مطلع صاف ہوتا ہے اور سورج کو اپنی آب و تاب دکھانے کا موقع ملتا ہے تو وہ اہل یورپ کے لیے خوشی کا دن ہوتا ہے، تعلیمی اداروں اور دفاتر میں چھٹی ہوجاتی ہے اور مرد و زن، بچے، بوڑھے، جوان سبھی گھروں سے نکل کر پارکوں اور ساحلوں کا رُخ کرتے ہیں اور اپنے اخلاق سوز کلچر کی داد دیتے ہیں۔
خیر یورپ کا ذِکر تو ضمناً آگیا ہم اپنے ملک میں جاڑے کی بات کررہے ہیں اس وقت پنجاب شدید دھند اور کُہر کی لپیٹ میں ہے جب کہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں سموگ نے بھی اودھم مچا رکھا ہے۔ سموگ میں دُھند کے ساتھ جلی ہوئی فصلوں کا دھواں بھی شامل ہوتا ہے جو آنکھوں میں جلن اور گلے میں سوزش پیدا کرتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ حرکت پڑوسی ملک کی ہے جہاں کسان فصلوں کی کٹائی کے بعد ان کی باقیات کو آگ لادیتے ہیں پھر ہوا چلتی ہے تو اس آگ کا دھواں پاکستان کے سرحدی شہروں کا رُخ کرلیتا ہے، لاہور ان متاثرہ شہروں میں سرفہرست ہے۔ شدید دھند نے سڑکوں اور خاص طور پر موٹر وے کو بہت متاثر کیا ہے اور حدِ نگاہ صفر ہو کر رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موٹر وے کے کئی سیکشن آمدورفت کے لیے بند کردیے گئے ہیں۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ موسم سرما کی دُھند کے ساتھ ساتھ سیاسی دُھند نے بھی پورے ملک کے سیاسی منظر کو دھندلا رکھا ہے اور کچھ معلوم نہیں ہورہا کہ حکومت کیا کررہی ہے اور کیا کرنے جارہی ہے۔ کرپشن اور کرپٹ عناصر کے خلاف عمران خان کے سارے دعوے ہوا میں تحلیل ہو کر رہ گئے ہیں۔ شریف برادران لندن میں ہیں اور
ان کا فی الحال پاکستان واپس آنے کا ارادہ نہیں ہے۔ نواز شریف تو خیر بیمار ہیں انہوں نے میڈیکل رپورٹس کی بنیاد پر اپنی ضمانت میں توسیع کی درخواست دے دی ہے، البتہ شہباز شریف اپنی مرضی سے لندن گئے ہیں اور وہاں بیٹھ کر پاکستان کی سیاست میں حصہ لے رہے ہیں، کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب میڈیا میں ان کا کوئی بیان شائع نہ ہوتا ہو بسینہ گزٹ یہ بھی ہے کہ نواز شریف کے بیٹوں نے اپنے چچا کے خلاف محاذ قائم کرلیا ہے وہ اپنے خاندان پر آنے والی ابتلا کا ذمے دار چچا کو سمجھتے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ دونوں بھائی آپس میں ملنے نہ پائیں اور کوئی ایسا ’’لندن پلان‘‘ نہ بنے جو ان کے مفادات کے خلاف ہو۔ اِدھر زرداری بھی رہا ہو کر کراچی پہنچ گئے ہیں جب کہ پیپلز پارٹی کے اور بھی کئی لیڈروں کی ضمانتیں ہوگئی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ یہ ضمانتوں کا موسم ہے، بے شک عدالتیں ملزموں کو رہا کررہی ہیں لیکن وہ بھی ’’مزاجِ یار‘‘ کو دیکھتی ہیں۔ مزاج یار برہم ہو تو عدالتیں بھی احتیاط برتتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’’مزاج یار‘‘ کو یہ دھند آلود موسم راس آگیا ہے۔ ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کے مصداق جن کا دعویٰ تھا کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا، اب ایک ایک کرکے سب چھوٹتے جارہے ہیں اور ان کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس کرپشن کے خلاف نیب کے اختیارات سلب کیے جارہے ہیں تا کہ وہ زیادہ پھرتی کا مظاہرہ نہ کرے اور انہیں سکون سے حکومت کرنے دے۔ ایسے میں مولانا فضل الرحمن بھی خوش ہیں جن کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے اپنے آزادی مارچ کے دوران اپنے بہت سے مقاصد حاصل کرلیے ہیں۔ ایک دو ماہ میں حکومت رخصت ہوجائے گی لیکن بظاہر حکومت رخصت ہوتی نظر نہیں آتی۔ عمران خان نے سال ڈیڑھ سال کے دوران اور کچھ سیکھا ہو یا نہ ہو، کم از کم اپنی حکومت بچانے کا گُر ضرور سیکھ گئے ہیں۔ جہاں وہ دیکھتے ہیں کہ ان کا اصولی موقف حکومت کے لیے مشکلات پیدا کررہا ہے تو وہ حکومت کو بچانے کے لیے فوراً یوٹرن لے لیتے ہیں اور پوری قوم دیکھتی رہ جاتی ہے۔ عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں گئے وہاں انہوں نے بڑی معرکتہ الآرا تقریر کی، کشمیریوں کے خلاف مظالم پر بھارت کو للکارا، عالمی برادری کو بے حسی کا طعنہ دیا، اسلاموفوبیا پر کھل کر بات کی۔ غرض ان کی تقریر ہر اعتبار سے پُرمغز اور جاندار تھی۔ اس سے ترکی کے طیب اردوان اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد بہت متاثر ہوئے، انہوں نے فیصلہ کیا کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شر انگیز عالمی مہم کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمان ملکوں کو متحد اور فعال کیا جائے گا۔ انہوں نے عمران خان کو بھی اعتماد میں لیا لیکن جب مہاتیر محمد نے ملائیشیا میں اسلامی ملکوں کی سربراہ کانفرنس بلائی تو خان صاحب اس میں جانے بلکہ پاکستان کا وفد بھیجنے سے بھی کنی کترا گئے کیوں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس کانفرنس کے خلاف تھے۔ اب کون عمران خان پر اعتبار کرے گا، وہ اندرون ملک اپنی حکومت کو بچانے کے لیے تو یوٹرن لے ہی رہے ہیں ان کے بیرونی تعلقات بھی یوٹرن سے محفوظ نہیں ہیں۔
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ موسم سرما کی دھند تو کچھ دنوں میں چھٹ جائے گی لیکن سیاسی موسم پر جو دھند چھائی ہوئی ہے اس کا چھٹنا آسان نہیں ہے یہ روز بروز گہری ہوتی جائے گی اور مطلع اسی وقت صاف ہوگا جب عوام انتخابات کے ذریعے نئے حکمران منتخب کریں گے۔ یہ انتخابات وقت سے پہلے بھی ہوسکتے ہیں۔