مولانا سید محمد انور شاہ
قرآن کریم اور احادیثِ طیبہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے تزکیہ کا اعلان کرے، یا اپنے لیے ایسے القاب اختیار کرے جس میں پاکیزگی اور تقدس کا پہلو پایا جاتا ہو، چنانچہ ذیل میں اس کے متعلق چند آیاتِ کریمہ مفسرین کی تشریح کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے:
’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو بڑا ہی پاکیزہ بتاتے ہیں؟ حالانکہ پاکیزگی تو اللہ جس کو چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے، اور کسی پر اس عطا میں ایک دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا‘‘۔ (النساء:49)
اس آیت کے شانِ نزول میں مفسرین لکھتے ہیں:
’’یہود اپنے آپ کو بڑے پاکیزہ اور مقدس بتلاتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور محبوب ترین لوگ ہیں۔ اس آیتِ کریمہ میں ان کی مذمت کی گئی ہے کہ ذرا ان لوگوں کو دیکھو! جو اپنی پاکی بیان کررہے ہیں، ان پر تعجب کرنا چاہیے‘‘۔
اس آیتِ کریمہ کے تحت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ لکھتے ہیں:
’’معلوم ہوا کہ اپنے کو پاک باز کہنا اور تقدس کا دعویٰ کرنا صریح گنا ہ ہے‘‘۔ (معارف القرآن)
مولانا مفتی محمد شفیعؒ نے اپنی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں اس آیت کے متعلق عنوان باندھا ہے: ’’اپنی مدح سرائی اور عیوب سے پاک ہونے کا دعویٰ جائز نہیں‘‘۔ پھر تفصیل میں لکھتے ہیں:
’’اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو اپنی یا دوسروں کی پاکی بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ ممانعت تین وجہ سے ہے:
1۔اپنی مدح کا سبب اکثر کبر ہوتا ہے، تو حقیقت میں ممانعت کبر سے ہوئی۔
2۔یہ کہ خاتمے کا حال اللہ کو معلوم ہے کہ تقویٰ وطہارت پر ہوگا یا نہیں، اس لیے اپنے آپ کو مقدس بتلانا خلافِ خوفِ الٰہی ہے۔
3۔ممانعت کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اکثر اوقات اس دعوے سے لوگوں کو یہ وہم ہونے لگتا ہے کہ یہ آدمی اللہ کے ہاں اس لیے مقبول ہے کہ یہ تمام نقائص اور عیوب سے پاک ہے، حالانکہ یہ جھوٹ ہے، کیونکہ بہت سے عیوب بندے میں موجود ہوتے ہیں‘‘۔ (معارف القرآن)
مولانا اشرف علی تھانویؒ بیان القرآن میں لکھتے ہیں:
’’اس میں دعوائے تقدس پر انکار ہے اور اس میں بجز اہلِ قنا کے بہت مشائخ مبتلا ہیں‘‘۔ (بیان القرآن، ج:1، ص:361)
ترجمہ: ’’تم اپنی پاکیزگی مت بیان کرو، وہ خوب جانتا ہے کہ کون متقی ہے‘‘۔ ( سورۂ النجم: 32)
تھانویؒ ’’بیان القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’اس آیتِ کریمہ میں دعوائے تقدس سے صریح ممانعت ہے‘‘۔
مولانا عاشق الٰہیؒ تفسیر انوار البیان میں لکھتے ہیں:
’’اپنا تزکیہ کرنا اور اپنی تعریف کرنا، یعنی اپنے اعمال کو اچھا بتانا اور اپنے اعمال کو بیان کرکے دوسروں کو معتقد بنانا، یا اپنے اعمال پر اترانا اور فخر کرنا، آیت کریمہ سے ان سب کی ممانعت معلوم ہوگئی۔ رسول اللہؐ کو ایسا نام رکھنا بھی پسند نہ تھا جس سے اپنی بڑائی اور خوبی کی طرف اشارہ ہوتا ہو‘‘۔
مولانا صوفی عبدالحمید سواتیؒ ’’معالم العرفان‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ امیروں، وزیروں، اور عہدیداروں کی ان کے حاشیہ بردار کتنی تعریفیں کرتے ہیں، ان کو سپاس نامے پیش کیے جاتے ہیں جس میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں، آپ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ ایسے معاملے میں مبالغہ آرائی سے منع کیا گیا ہے، صرف حقیقت بیان کرنے کی اجازت ہے‘‘۔
احادیثِ طیبہ کی روشنی میں
ایک مرتبہ ایک شخص نے جناب نبی کریمؐ کے سامنے ایک دوسرے آدمی کی خوب مدح و تعریف کی، اس پر آپؐ نے فرمایا: ’’افسوس ہے تجھ پر، تو نے تو اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی‘‘۔ پھر فرمایا: اگر تمہیں کسی کی تعریف کرنی ہو تو ان الفاظ سے کرو کہ میرے علم کے مطابق یہ شخص نیک و متقی ہے۔ یعنی ’’میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ کے نزدیک بھی وہ ایسا ہی ہے جیسا میں سمجھ رہا ہوں‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب الشہادات و الادب۔ مسلم ،کتاب الزہد)
ایک روایت میں ہے کہ زینب بن ابی سلمہؓ فرماتی ہیں کہ جناب نبی کریمؐ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ چونکہ اس وقت میرا نام ’’برّہ‘‘ تھا (جس کے معنی ہیں نیک وگناہوں سے پاک عورت) میں نے وہی بتلایا، تو آپؐ نے فرمایا: ’’تم اپنے آپ کی گناہوں سے پاکی بیان نہ کرو، کیونکہ یہ علم صرف اللہ ہی کو ہے کہ تم میں سے نیک اور پاک کون ہے‘‘۔ پھر ’’برہ‘‘ کے بجائے آپ نے زینب نام رکھا۔ (مسلم و بخاری ، باب تحویل الاسم) مطلب یہ ہے کہ جب کسی کا نام ’’برہ‘‘ (نیک عورت) ہوگا تو اس سے جب دریافت کیا جائے گا کہ تم کون ہو؟ تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ یہ کہے گی ’’برّہ‘‘ یعنی میں نیک اور گناہوں سے پاک خاتون ہوں، اس میں چونکہ بظاہر صورتاً خود اپنی زبان سے نیک ہونے کا دعویٰ پایا جاتا ہے، اس لیے آپؐ نے اس سے منع فرمایا۔
علامہ ابن الحاج مالکیؒ نے ’’سنن ابوداؤد‘‘ کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ نبی اقدسؐ کی خدمت میں ایک وفد حاضر ہوا، آپؐ نے ان کو سنا کہ وہ اپنے سردار کو ’’ابو الحکم‘‘ سے پکار رہے تھے۔ آپؐ نے اس کنیت کو ناپسند فرمایا، ان کے سردار کو بْلایا اور ان سے پوچھا کہ آپ کو ’’ابو الحکم‘‘ کیوں کہتے ہیں؟ اس نے جواب میں کہا کہ میری قوم میں جب کوئی دو فریق اختلاف کریں تو وہ میرے پاس فیصلہ کرنے کے لیے آتے ہیں، پھر میں ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں۔ تو دونوں فریق اس فیصلے کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ آپؐ نے اس سے پوچھا: آپ کی اولاد ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! میرے تین بیٹے ہیں: شریح، عبداللہ، مسلم۔ آپ نے اس سے پوچھا: ان میں بڑا کون ہے؟ انہوں نے کہا: شریح۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ آپ ابو شریح ہیں نہ کہ ابوالحکم۔ کیونکہ اس میں تقدس اور بڑائی کا پہلو پایا جاتا ہے۔ (المدخل، فصل فی ذکر النعوت)
جناب نبی کریمؐ نے اپنی ذاتِ اقدس کے متعلق ارشاد فرمایا: ’’لوگو! میری تعریف میں مبالغے سے کام نہیں لینا، جیسا کہ نصاریٰ نے عیسی بن مریمؑ کے متعلق مبالغہ اختیار کیا ہے‘‘۔ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو الوہیت کا درجہ دے کر خود کافر اور مشرک بن گئے، میرے ساتھ ایسا معاملہ نہ کرنا۔ ’’میں تو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں‘‘۔ لہٰذا تم بھی مجھے اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہو۔ (بخاری، باب واذکر فی الکتاب مریم)
بشکریہ، ماہنامہ بینات، کراچی)