شیخ محمد صالح
عربوں نے اسلام سے پہلے قمری مہینوں کے نام استعمال کیے ہیں اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عرب میں کچھ ناموں پر اتفاق ہوگیا اور عرب علاقے میں رائج ہوگئے۔ یہ وہی صورت تھی جس میں یہ نام آج کل ہمارے ہاں معروف ہیں۔ نیز یہ پانچویں صدی عیسوی کا واقعہ ہے جو کہ نبیؐ کے پانچویں دادا ’’کلاب‘‘ کا زمانہ تھا۔
قمری مہینوں کے نام رکھنے کی وجہ تسمیہ اور جن معانی کی وجہ سے ان مہینوں کو موسوم کیا گیا ہے انہیں اہل علم نے ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن کثیرؒ کہتے ہیں:
شیخ علم الدین سخاویؒ نے ایک رسالہ لکھا جس کا نام ہے: ’’المَشْہورْ فی َاسمَاء ِ الایَّامِ وَالشّہْور‘‘ اس میں وہ رقمطراز ہیں:
محرم کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ مہینہ حرمت والا ہے، لیکن میرے نزدیک اس کی وجہ تسمیہ اس مہینے کی حرمت کو مزید عیاں اور مؤکد کرنے کے لیے اس نام سے موسوم کیا گیا؛ کیونکہ عرب اس مہینے کی حرمت کو دیگر مہینوں میں منتقل کرتے رہتے تھے۔ ایک سال محرم کو حرمت والا سمجھتے اور آئندہ سال میں اس کی حرمت کسی اور مہینے میں منتقل کر دیتے تھے اور اسے حلال جانتے تھے۔
صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ عربوں کے گھر سفر اور جنگوں پر روانگی کے باعث رہنے والوں سے خالی ہو جاتے تھے، اور عربی زبان میں ’’صَفِرَ المَکَانْ‘‘ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی جگہ انسانوں سے خالی ہو جائے۔
ربیع الاول کی وجہ تسمیہ یہ ہے (یہ ’’ارتباع‘‘ سے ہے) اور ارتباع گھر میں ٹکے رہنے کو کہتے ہیں چونکہ اس مہینے میں لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے تھے، اس لیے اسے ربیع کا نام دیا گیا۔
جمادی الاولی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں پانی جامد ہوگیا تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ ان کے حساب سے قمری مہینے گرمی سردی میں تبدیل ہو کر نہیں آتے تھے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ اگر قمری مہینے چاند سے منسلک ہیں تو لازمی بات ہے کہ یہ مہینے گرمی اور سردی تبدیل ہو کر آئیں؛ البتہ یہ ممکن ہے کہ جس وقت انہوں نے ان مہینوں کو نام دیے تو اس وقت پانی سردی کی وجہ سے جم چکا تھا۔ جمادی کا لفظ مذکر اور مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے، چنانچہ ’’جمادی الاول” اور ’’جمادی الاولی‘‘ دونوں طرح کہنا درست ہے۔
رجب عربی زبان کے لفظ : ’’ترجیب‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے تعظیم کرنا ہے (یہ حرمت والا مہینہ ہے اور اس کی تعظیم کی جاتی ہے اس لیے اسے رجب کے نام سے موسوم کیا گیا۔
شعبان کا لفظ ’’تشعب‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے بکھرنا، منتشر ہونا، (اس مہینے میں لوگ حرمت والے مہینے میں گھروں میں قید رہنے کے بعد لڑائی جھگڑے کے لیے باہر نکلتے تھے)۔
رمضان کا لفظ ’’رمضاء‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے سخت گرمی، عربی میں ’’رمضت الفصال‘‘ اس وقت کہا جاتا ہے جب اونٹنی کا بچہ گرمی سے پیاسا ہو جائے۔
شوال کا لفظ عربی زبان کے مقولے ’’شالت الابل باذنابہا للطراق‘‘ سے ماخوذ ہے اور یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب اونٹ جفتی کے لیے اپنی دم اٹھائے۔
ذوالقعدہ میں ’’ق‘‘ پر زبر پڑھی جائے گی، لیکن میں کہتا ہوں کہ زیر بھی پڑھی جاسکتی ہیں؛ کیونکہ عرب اس مہینے میں جنگوں اور سفر کرنے سے گھروں میں بیٹھ جاتے تھے۔
ذوالحجہ میں ’’ح‘‘ پر زیر پڑھی گئی ہے، لیکن میں کہتا ہوں کہ زبر پڑھنا بھی ٹھیک ہے؛ کیونکہ اس مہینے میں حج کیا جاتا ہے اس لیے اس مہینے کا نام ذو الحجہ ہے۔
ماخوذ از: تفسیر ابن کثیر:(4/ 128-129)
مہینوں کے نام اور ان کے معانی کی شرح، اصل اشتقاق بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اسی طرح وجہ تسمیہ بھی بیان کی جا سکتی ہے، جیسے کہ پہلے بھی مؤرخین اور علمائے لغت بیان کرتے آئے ہیں۔
یہ واضح رہے کہ اس ناموں کے اصل اشتقاق کا مہینوں کے ناموں سے کوئی تعلق نہیں رہا؛ کیونکہ قمری مہینے سال کے سارے موسموں میں بدل بدل کر آتے ہیں، نیز وجہ تسمیہ کا شرعی احکامات سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔