انڈیا ایک اور اسپین

270

مودی نے انڈیا میں ایک اور پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے۔ انڈین پارلیمنٹ (لوک سبھا) میں شہریت سے متعلق متنازع بل منظور کر لیا گیا۔ اس بل کے مطابق سوائے مسلمانوں کے تمام مذاہب (سکھ، عیسائی، پادری، ہندو، بودھ، اور جین) کے غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دی جاسکتی ہے۔ اس بل میں شہریت کے 64 سال پرانے قانون میں ترمیم کی تجویز ہے۔ انڈیا ایک سیکولر ملک ہے لیکن اب سی۔ اے بی/سی۔ اے۔ اے جو دونوں ہائوسز (لوک سبھا اور راجیا سبھا) میں پاس بھی ہو جائیگا، پہلی مرتبہ مذہب کی بنیاد پر شہریت میں تفریق پیدا کر دی گئی ہے۔ اس بل کی منظوری کے بعد آسام کے 40 لاکھ مسلمان انڈین شہریت کی فہرست سے خارج ہو جائیں گے۔ یہ قانون بنا کر بی۔ جے۔ پی مسلمانوں کو پیغام دینا چاہتی ہے کہ انڈیا میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بی۔ جے۔ پی کے تاریخی پس منظر کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ آر۔ ایس۔ ایس کا پولیٹکل ونگ بی۔جے۔پی ہے۔ آر۔ ایس۔ ایس اور سنگ پریوار ہندو معاشرے میں بہت بڑی طاقت ہے، جس کے تانے بانے مرہٹہ طاقت سے ملتے ہیں۔ مرہٹوں نے اورنگزیب عالمگیر کو زچ کر کے رکھا ہوا تھا۔ اسے دلی میں رہنا نصیب نہ ہوا۔ مرہٹوں کی سوچ یہ تھی کہ ہندوستان (دھرتی ماتا) دیوتائوں کی سرزمین ہے۔ جسے دیوتائوں نے اپنے ماننے والوں یعنی ہندووں کے سپرد کیا ہے۔ جو دیوتائوں کو نہیں مانتا وہ پلید اور ناپاک ہے اس لیے اسے دھرتی ماتا پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ وہ مذہبی پرتشدد سوچ تھی جس نے مرہٹوں کو مسلسل اورنگزیب کے ساتھ مزاحمت پر مجبور کیا۔ اورنگزیب بادشاہ نے اپنے طور پر مرہٹوں کا ناطقہ بند کیے رکھا، ان کی طاقت کم کی لیکن ختم نہ کر سکا۔ اورنگزیب کے بعد مغلیہ سلطنت جب کمزور ہوئی تو یہ طاقت پھر ابھری جسے شاہ ولی اللہ نے سمجھا، انہوں مرہٹہ طاقت کو جب ابھرتے دیکھا تو احمد شاہ ابدالی کو خط لکھ کر مدد کی درخواست کی۔ احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کی طاقت ختم کی۔ احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں پر حملہ کیا اس کے پیچھے سوچ شاہ ولی اللہ کی تھی۔ وگرنہ مسلمانوں کے ساتھ وہ کچھ ہونا تھا جو اسپین میں ہوا۔ 93 ہجری میں اسپین اور ہندوستان میں بیک وقت مسلمان داخل ہوئے۔ اور 1492 عیسوی میں اسپین سے مسلمانوں کا خاتمہ ہوا۔ مرہٹوں کی یہ سوچ تھی کہ مسلمانوں کا ہندوستان سے ایسے ہی خاتمہ کردیں گے جیسے اسپین میں خاتمہ ہوا۔ بہر حال احمد شاہ ابدالی مسلمانوں کے بہت بڑے محسن ہیں جنہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کا تحفظ کیا۔ اور مرہٹہ طاقت کا سر کچلا۔ البتہ کچھ عرصہ بعد مرہٹے پھر منظم ہوئے۔ 80/90 سال پہلے جب ہندوستان میں خاکسار تحریک اٹھی تو ہندووں کو خوف محسوس ہوا۔ اس تحریک کے جواب میں ہندووں نے جو تنظیم بنائی وہ آر۔ ایس۔ ایس تھی۔ یہ ایک نیم فوجی جماعت تھی۔ مرہٹہ طاقت نے اب آر۔ ایس۔ ایس کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ان کی طاقت کا اندازہ بابری مسجد کی شہادت سے لگالیں کہ لاکھوں لوگ نکلے اور مسجد کو شہید کر دیا۔ ان کے اثرات بھارتی ٹی وی کے اینکرز پر بھی نظر آتے ہیں جو اس جنونی ہندومعاشرے کی ڈیمانڈ کے مطابق خود بھی جنونی اور متعصب نظر آتے ہیں۔
آر۔ ایس۔ ایس کی وجہ ہی سے نریندر مودی الیکشن جیتا۔ مودی جو پوری دنیا میں بین تھا، ثابت شدہ دہشت گرد، جو کچھ اس نے گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ کیا اس کی وجہ سے امریکا میں اس کا داخلہ منع تھا۔ مگر اس کے باوجود آر۔ ایس۔ ایس کی سوچ نے اسے الیکشن جتوا کر وزیر اعظم بنایا۔ چونکہ ان کی سوچ یہ ہے کہ دھرتی ماتا صرف ہندووں کے لیے ہے، لہٰذا شروع میں ان کا نعرہ تھا ’’مسلمان کے لیے دو استھان۔ قبرستان یا پاکستان‘‘۔ اس کی ایک جھلک انہوں نے گجرات میں دکھائی۔ ان کا اگلہ مقصد پاکستان کو بھی ختم کر کے گریٹر انڈیا بنانے کا ہے۔ جیسے اسپین سے مسلمانوں کو ختم کیا گیا اسی طرح پورے خطے سے مسلمانوں کو ختم کر کے دھرتی کو پاک کرنا ہے۔ پہلے مرحلے میں وہ کیا کرنے جا رہے ہیں؟
انڈیا کا قانون؍ آئین سیکولر ہے جس میں تمام مذاہب کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ جو کمیونٹی یہ سمجھتی ہے کہ صرف ہندو ہی اس سرزمین کے حقدار
ہیں وہ اس آئین کو نہیں مانتے۔ گاندھی کو قتل کرنے والا آر۔ ایس۔ ایس کا ایک فرد تھا۔ مسلمانوں کو حقوق دینے پر گاندھی کوقتل کیا گیا۔ آر۔ ایس۔ ایس چاہتی ہے کہ اس سیکولر آئین کو ختم کر دیا جائے اور اس میں تبدیلی کی جائے۔ اس ترمیم کے حق میں 22 ریاستیں ہیں جن میں ان کو اکثریت حاصل ہے۔ کل انڈیا میں 29 یا 30 ریاستیں ہیں۔ سی۔ اے۔ اے اور سی۔ اے۔ بی بل پاس ہو چکا ہے۔ اس کے بعد انہیں یہ قانون بنانا ہے کہ ہندوستان کے شہری صرف ہندو ہیں۔ زمین کے مالک آپ اسی وقت بن سکتے ہیں جب آپ اس ملک کے شہری ہوں۔ جب آپ شہری ہی نہ رہے تو آپ اس ملک میں غلام کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔ اور غلام کے آقا کی مرضی ہوتی کہ اسے زندہ رکھے یا مردہ۔ جیسا کہ برما میں صورتحال ہمیں دیکھنے کو ملی۔ ان کے شہری حقوق ضبط کیے گئے۔ قتل کیا گیا، زندہ جلایا گیا، ملک بدر کر دیا گیا۔ مودی حکومت نے ایک مرتبہ پھر دو قومی نظریہ کو زندہ کر دیا ہے۔ اور انڈیا میں جو لبرل مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ گاندھی اور نہرو کے نظریات کے مطابق انہیں انڈیا میں تحفظ دیا جائے گا اور وہ انڈیا میں محفوظ ہیں، یہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی تھی۔ انڈیا کے مسلمانوں کو دو قومی نظریہ کا شدت سے احساس ہوگیا ہے۔ مسلمانوں کو یا تو مرنا ہوگا یا پھر اپنے حق کے لیے اٹھنا ہوگا۔ سی۔ اے۔ بی شہریت کے متنازع بل نے انڈیا میں ایک اور پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے۔ ان شا اللہ انڈیا اپنی 100ویں سالگرہ انڈین یونین کی شکل میں نہیں منا سکے گا۔ مودی اپنے پانچ سال پورے کرتا ہے تو انڈیا 5 یا 6 ریاستوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو انڈیا کے بہت سے صوبوں میں سول وار شروع ہو جائے گی۔ کسی بھی قوم میں جب مذہبی بنیادوں پر جدوجہد شروع ہو جائے تو پھر اس کو دبانا مشکل ہے۔ 72 سال بعد انڈیا کے مسلمانوں کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ انڈیا میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں، وہ الگ قوم ہیں۔ ظاہر ہے وہ پاکستان نہیں آسکتے۔ ان کے پاس واحد راستہ انڈیا کی یونین کو خیر آباد کہنا اور اپنا الگ وطن بنانا ہے۔ اب اس ساری صورتحال میں پاکستانی حکومت کو سب سے پہلے انٹرنیشنل فورم پر اس کو اٹھانا چاہیے۔ ہمیں انڈین مسلمانوں کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے۔ پاکستان خود ابھی تک بھارتی عزائم سے مکمل طور آگاہ نہیں۔ اگر آگاہ بھی ہے تو اس پر بھی باقی عالم اسلام کی طرح بے حسی کی دبیز چادر تنی ہوئی ہے۔ آر۔ ایس۔ ایس کے نظریے میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ آر۔ ایس۔ ایس کی تشکیل میں مسلمانوں کا استیصال سرفہرست ہے۔ ان کی نظر میں مسلمان نجس اور ناپاک ہیں، ان کا یہاں سے اسی طرح صفایا کرنا ہے، جیسا کہ فلسطین میں اسرائیل نے مسلمانوں کے ساتھ کیا ہے۔ بھارت کا آئیڈیل اسرائیل ہے۔ جس طرح اسرائیل یہودی بستیاں بسا کر فلسطینی مسلمانوں کو کیمپوں کی طرف ہانک رہا ہے، وہی کچھ بھارت، بھارتی مسلمانوں کے ساتھ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ اس کا آغاز آسام میں ہو چکا ہے، لاکھوں مسلمانوں کو جو صدیوں سے آسام کے باشندے ہیں راتوں رات شہریت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ وسیع قید خانوں کی تعمیر کی جارہی ہے جنہیں کیمپ کہا جائے گا۔ حد یہ ہے کہ ریٹائرڈ بھارتی فوجیوں کو بھی شہریت سے محروم کیا جا رہا ہے، صرف اس لیے کہ وہ مسلمان ہیں۔ جبکہ بنگلا دیش آنے والے ہندووں کو جو غیر ملکی ہیں شہریت دی جارہی ہے۔
اس کے بعد بھارت یہ کھیل۔ یوپی۔ آندھرا پردیش، انندگانہ اور بہار میں بھی کھیلے گا، پنجاب اور کیرالہ کی باری آخیر میں آئے گی۔ اس ساری صورتحال میں صرف پاکستان اور بنگلا دیش ہی سے ردعمل نظر آئے گا۔ پوری مسلم دنیا نے بابری مسجد کے گرائے جانے پر بھارت کو کوئی الٹی میٹم نہیں دیا تھا کہ مسجد دوبارہ تعمیر کی جائے وگرنہ تعلقات ختم کر دیں گے۔ سفارتی تعلقات تو دور کی بات ہے تجارتی تعلقات کو ختم کرنے کی کسی بھی اسلامی ملک نے دھمکی نہ دی بلکہ 100ارب ڈالر کا سعودی ولی عہد نے حالیہ دنوں میں بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدہ بھی کیا ہے۔ لہٰذا ہندو نے مسلم دنیا کی نبض دیکھ لی ہے۔ غیرت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے، بھارت کے ہندووں کے عزائم صرف بھارت کے مسلمانوں تک نہیں ہیں۔ وہ پاکستان افغانستان سے لیکر انڈونیشیا تک گریٹر انڈیا (مہا بھارت) بنانا چاہتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے، ہم مسلمانوں کو متحد ہو جانا چاہیے۔