سود سے جان چھڑائیں

209

وزیر اعظم عمران خان نے شکوہ کیا ہے کہ ملکی آمدن کا نصف سود میں چلا جاتا ہے ۔ اگر ایسا ہے اور یقیناً ایسا ہی ہو رہا ہو گا تو اس پر حکومت کو شکوہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ انتخابات سے قبل اور حکومت سنبھالنے کے بعد تک عمران خان نیازی کہتے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے کہ خود کشی کر لوں ۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وزیر اعظم نے پوری قوم کو خود کشی پر مجبور کر دیا ۔ آئی ایم ایف کی شرائط مان لیں اور پورے ملک میں مہنگائی ، بے روز گاری او چھت سے محرومی کا سونامی آ گیا ۔ حکومت پچاس لاکھ گھر دینے کا دعویٰ کر رہی تھی آئی ایم ایف کے سودی قرضے لینے کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا ۔ سودی ساہو کاروں سے قرضے لینے کے نتائج اور ان کے آدمی کومرکزی بینک کے صدر کے عہدے پر بٹھا دینے سے ڈالر کو پر لگ گئے پھر106 والا ڈالر170 پر پہنچ گیا ۔ ہر وہ کام جس سے پاکستان کی معیشت کو نقصان ہو رہا ہے وہ حکومت نے خود کیا ہے ۔اب سود کی مد میں آمدنی ضائع ہونے کا شکوہ وزیر اعظم کس سے کر رہے ہیں ۔ حکومت کے ڈالر کو آزاد کر کے پر لگانے کے فیصلے سے درآمدات کے بل میں اضافہ اور برآمدات میں کمی کروا دی ہے ۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ بھی تھا اس اضافے نے بھی صنعتوں کا بھٹہ بٹھا دیا ہے ۔ اب حال یہ ہے کہ پاکستانی حکومت قرضے پر قرضہ لے رہی ہے اور بظاہر قومی سطح پر زر مبادلہ کے ذخائر بہتر نظر آ رہے ہیں کیونکہ قرضے بھی مل گئے اور سعودی عرب نے بھی رقم جمع کرا دی ہے ۔ اس کے باوجود نتیجہ تو یہی ہونا تھا کہ جو کچھ ملک میں آ رہا ہے اس کا نصف سود کی ادائیگی میں خرچ ہو رہا ہے ۔ وہ تو خیر ہوئی دوست ممالک یا مطلب کی خاطرکروڑوں ڈالر پاکستان کو دینے والوں کی وجہ سے کچھ رقم خزانوں میں نظر آ رہی ہے ورنہ ساری آمدنی ہی بین الاقوامی قرضوں کے سود میں خرچ ہو جاتی ۔ وزیر اعظم کو سمجھانے والا کوئی نہیں کہ سودی نظام رائج کر کے ، سودی قرضے لے کر صرف اللہ اور رسول سے جنگ ہو سکتی ہے اور اس جنگ کا نتیجہ پوچھنے کی ضرورت نہیں نظر آ ہی رہا ہے۔ وزیر اعظم عالمی بینک سے کسی کو بلا لیں یا پوری آئی ایم ایف کو ،سب مل کر اللہ اور رسول سے جنگ کا نقشہ تبدیل نہیں کر سکتے ۔ نتیجہ وہی ہوگا جو ہو رہا ہے ۔