آرمی چیف کی مدت میں توسیع پر اتفاق

143

اب آرمی چیف کے منصب کی مدت میں توسیع میں زیادہ دیر نہیں رہ گئی ۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں میں مجوزہ بل منظو کرایا گیا ہے ۔ جمہوریت کی بالا دستی کی دعویدار تینوں بڑی جماعتوں نے جمہوریت کے بہترین مفاد میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے ۔ مسلم لیگ اور پی ٹی آئی جانی دشمن ہی لگتے ہیں ۔ یہی تعلق پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان ہے ۔ جب مسلم لیگ یا پی پی پی کی حکومت ہوتی ہے تو ان دونوں میں بھی اسی قسم کی دشمنی ہوتی ہے لیکن یہ تینوں پہلے بھی ایک ہوئے تھے اور آج بھی ایک پیچ پر ہیں ۔ یہ پیچ کون بناتا ہے اب یہ سوال پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ فی الوقت تو مسلم لیگ ن کے سربراہ نے جمہوری بیان جاری کیا ہے کہ جلد بازی میں فیصلہ نہ کیا جائے ۔ بلاول زرداری نے کہا ہے کہ جمہوری طریقہ اختیار کیا جائے ۔ سارا الزام یا بوجھ عدلیہ پر ڈالا جا رہا ہے کہ اس نے قانون سازی کا حکم دیا تھا ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کے معاشی مسائل ، بھارتی جارحیت ، کشمیر کا مسئلہ ، آبی مسائل اور پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا معاملہ محض آرمی چیف کی مدت ملازمت کی وجہ سے رکا پڑا ہوا تھا ۔ جوں ہی یہ توسیع ہو گی ملک میں امن و امان کا دور دورہ ہوگا لوگ خوشحال ہو جائیں گے اور کشمیر سمیت تمام مسائل حل ہو جائیں گے ۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے اور ایسا ہو گا بھی نہیں ۔ اس فیصلے سے جو کچھ ہو گا وہ شاید وقتی طور پر تو کسی طور فائدہ پہنچا دے گا لیکن اس کے نتیجے میں جہاں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع وزیر اعظم کا اختیار بن جائے گی وہیں وزیر اعظم کی ذاتی پسند و نا پسند کے نتیجے میں آرمی چیف کے منصب کا وقار وزیر اعظم کے ہاتھوں میں ہوگا ۔ آج عمران خان وزیر اعظم ہیں اور فوج کے پیچ پر اس کے ساتھ ہیں لیکن یہ سیٹ اب کب تک چلے گا کل کو نیا وزیر عظم اور نیا آرمی چیف ہو گا اور اس کے بعد پاک فوج کا جرنیل اور سیاسی طالع آزما ہوا تو اپنے منصب کی توسیع کے لیے وہ تمام حربے اختیارکرے گا جو اس کے منصب اور حلف کے تقاضوں کے منافی ہوں گے ۔ توسیع سے فوج کے دیگر جرنیلوں پر بھی جو اثرپڑے گا وہ دنیا کی بہترین اور پیشہ ور فوج کے لیے اچھے نتائج نہیں لا سکے گا ۔ پاکستان خطے میں جس اہم مقام پر واقع ہے اس کی اہمیت سے پوری دنیا واقف ہے ۔ ایک اہم نکتے پر غور کی ضرورت ہے کہ جب پاکستان کے راستے افغانستان میں روس کے خلاف کارروائی کی ضرورت تھی تو اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق کو لایا گیا پھر روس کے خلاف جنگ لڑی گئی ۔ پھر اسی افغانستان میں امریکا کو داخل کرانے کی جنگ سے بہت پہلے پاکستان میں جنرل پرویز کو لایا گیا اور پھر امریکا کے لیے راستے ہموار ہو گئے ۔ اب خطے کی دوسری جانب محاذ گرم ہو رہا ہے اور پاکستان میں آئینی ترمیم کے لیے عجلت سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ موجودہ جرنیل کی ضرورت آنے والے حالات میں شدت سے محسوس کی جا رہی ہے لہٰذا بہت تیزی سے تبدیلی آنے والی ہے ۔ ابھی سے اس معاملے پر دو ٹوک رائے دینا تو نازک معاملہ ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ اس کی ضرورت کیا تھی ۔