رانا ثنا اللہ چھوٹ کیسے گئے؟

315

مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ کے خلاف تو منشیات کا بہت مضبوط کیس تھا۔ میڈیا میں جو کہانی چھپی اس کے مطابق رانا ثنا اللہ اپنی گاڑی میں 15 کلو ہیروئن لے کر فیصل آباد سے لاہور جارہے تھے کہ انسداد منشیات فورس (اے این ایف) کی ایک ٹیم نے راستے میں چھاپا مار کر ان سے ہیروئن برآمد کرلی اور انہیں موقع پر ہی گرفتار کرلیا۔ اس کہانی میں یہ بھی بنایا گیا تھا کہ رانا ثنا اللہ نے چھاپے کے دوران کوئی مزاحمت نہیں کی تھی بلکہ پندرہ کلو ہیروئن کا پیکٹ بریف کیس سے خود نکال کر چھاپا مار ٹیم کے حوالے کردیا تھا۔ ہیروئن کی برآمدگی اور رانا ثنا اللہ کی گرفتاری کے بعد وزیر مملکت شہریار آفریدی نے جو دھواں دھار پریس کانفرنس کی اس میں انہوں نے بتایا کہ رانا ثنا اللہ کی گرفتاری اچانک عمل میں نہیں آگئی بلکہ کافی دنوں سے ان کی نگرانی کی جارہی تھی وہ بین الاقوامی ڈرگ مافیا کے ایک اہم رکن ہیں۔ ڈرگ مافیا کا کارندہ افغانستان سے ہیروئن کی کھیپ لے کر فیصل آباد میں رانا کو پہنچاتا تھا پھر رانا اس کھیپ کو لاہور لے جا کر مافیا کے عالمی کارندے کے حوالے کرتے تھے جو اسے بیرون ملک بھیجتا تھا۔ شہریار آفریدی اپنی پریس کانفرنس میں زور پیدا کرنے کے لیے بار بار قسم بھی کھاتے رہے ’’میں اگر جھوٹ بولوں تو مرتے وقت مجھے کلمہ نصیب نہ ہو‘‘ یا ’’میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو کچھ میں بتارہا ہوں وہ سچ ہے آخر مجھے خدا کو جان دینی ہے‘‘۔ واضح رہے کہ اگر کسی ملزم سے پانچ کلو ہیروئن برآمد ہوجائے تو یہ ناقابل ضمانت کیس ہوتا ہے اور کوئی عدالت ملزم کی ضمانت نہیں لے سکتی۔ جس ملزم سے دس کلو ہیروئن برآمد ہو اس کی ضمانت کا کیا سوال‘ اسے تو سزائے موت ہوسکتی ہے۔ رانا ثنا اللہ کے کیس میں تو معاملہ ہی بہت سنگین تھا ان سے پانچ دس کلو نہیں پورے پندرہ کلو ہیروئن برآمد ہوئی تھی ان کی ضمانت تو کسی صورت ممکن ہی نہ تھی لیکن میڈیا ابتدا ہی سے اس کیس کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کررہا تھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ عمران خان نے رانا کو مونچھوں سے پکڑنے کی پہلے ہی دھمکی دے رکھی تھی ایسے میں کوئی بیوقوف ہی اپنے ساتھ ہیروئن لیے پھر سکتا تھا۔ رانا ثنا اللہ اپنی گرفتاری سے پہلے اس خدشے کا اظہار کررہے تھے کہ ان کی جان لینے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ انہوں نے حفظ ماتقدم کے طور پر اپنے گارڈز بھی تبدیل کردیے تھے لیکن انہیں اندازہ نہ تھا کہ منصوبہ کوئی اور ہے۔ انہیں براہِ راست ٹارگٹ کرنے کے بجائے منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں پھانسی پر لٹکایا جائے گا۔ شہریار آفریدی اس منصوبے کے حق میں قسمیں کھاتے رہے لیکن میڈیا نے اس منصوبے کو بُری طرح فلاپ کردیا۔
عدالتیں تو ٹھوس ثبوت اور ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہیں۔ رانا ثنا اللہ کم و بیش 4 ماہ جیل میں رہے۔ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دی تو استغاثہ ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت عدالت میں نہ پیش کرسکا۔ اس طرح ایک ناقابل ضمانت کیس قابل ضمانت بن گیا اور عدالت نے انہیں رہا کردیا۔ اب یار لوگ شہریار آفریدی سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اپنی قسموں کے کنارے میں وزارت سے استعفا دیں اور ایسے کام سے جان چھڑائیں جس میں جان سے زیادہ ایمان خطرے میں پڑجاتا ہے۔ قسم کے کفارے کا حکم تو قرآن میں آیا ہے لیکن بعض لوگ مصر ہیں کہ آفریدی مولانا طارق جمیل سے رجوع کریں وہ کفارے سے ان کی گلوخلاصی کرادیں گے۔ البتہ شہریار آفریدی ابھی تک اپنی قسموں پر قائم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالت نے رانا ثنا اللہ کو ضمانت پر رہا کیا ہے، انہیں بَری نہیں کیا، وہ بدستور ملزم ہیں۔ جب مقدمہ چلے گا تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ جب کہ اے این ایف حکام کا کہنا ہے کہ جب رانا پر فرد جرم عائد ہوگی تو وہ ٹھوس ثبوت بھی پیش کردیں گے۔ گویا
اک معّما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
پہلے فرد جرم عائد ہوگی اور ثبوت بعد میں پیش کیا جائے گا۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ اِدھر رانا ثنا اللہ رہائی کے بعد ٹی وی چینلوں پر خوب رش لے رہے ہیں، انہوں نے اپنی گاڑی میں ہیروئن کے اس بریف کیس کی موجودگی سے بھی انکار کیا ہے جو مبینہ طور پر اُن سے برآمد کیا گیا تھا۔ رانا کہتے ہیں کہ ان پر انٹرنیشنل ڈرگ مافیا کا کارندہ ہونے کا الزام لگایا گیا ہے تو کیا وہ اکیلے اس مافیا کو چلارہے تھے، آخر اس کے اور کارندے بھی تو ہوں گے، انہیں آخر کیوں نہیں پکڑا گیا؟ واقعی یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب شہریار آفریدی اور اے این ایف حکام کو دینا چاہیے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ رانا ثنا اللہ دودھ سے دُھلے ہوئے بالکل پاک صاف ہیں۔ فیصل آباد میں ان کی بدمعاشی کے بھی بڑے چرچے ہیں لیکن ہیروئن کیس میں ان پر ایسا اوچھا ہاتھ ڈالا گیا ہے کہ ایک ہی جھٹکے سے انہوں نے اپنا دامن چھڑالیا ہے۔ سُنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان انہیں مونچھوں سے پکڑنا چاہتے تھے، واقعی ان کی مونچھیں ایسی ہیں کہ آدمی انہیں پکڑ کر لٹک سکتا ہے لیکن ان کی یہ حسرت دل کی دل میں رہ گئی۔ اب انہیں شہریار آفریدی اور اے این ایف حکام سے پوچھنا چاہیے بلکہ کلاس لینی چاہیے کہ رانا ثنا اللہ چھوٹ کیسے گئے؟ اتنا کمزور کیس بنایا ہی کیوں تھا؟۔