ٹرمپ کی دہشت گردی، امن خطرے میں

221

دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد امریکا نے بغداد میں راکٹوں کا حملہ کر کے ایران کے سب سے طاقت ور شخص قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کردیا۔ ان کے ساتھ دیگر 7 افراد بھی جاں بحق ہوئے جن میں بغداد میں ایران کے حامی عراقی کمانڈر بھی شامل ہیں۔ یہ ایک وحشیانہ حملہ تھا جو امریکی صدر ٹرمپ کے حکم پر کیا گیا۔ امریکی صدر کے تکبر کا یہ عالم ہے کہ فرمایا جنرل سلیمانی کو بہت پہلے مار دینا چاہیے تھا۔ یہ درست ہے کہ ایران خمینی انقلاب پڑوسی ممالک میں برآمد کرنے میں لگا ہوا ہے، جیسا کہ امام خمینی نے ہدایت کی تھی۔ چنانچہ جہاں جہاں ایران کے حامی موجود ہیں ان کی پشت پناہی ایران سے کی جاتی ہے لیکن اس معاملے میں امریکا تو سب سے بازی لے گیا ہے اورجہاں اس کے مفادات کو کوئی خطرہ نہیں وہاں بھی وہ مسلح کارروائیاں کرتا ہے جس کی سب سے بڑی مثال افغانستان ہے۔ نیویارک میں تجارتی مرکز پر طیاروں کے حملے کا الزام لگا کر امریکا نے اپنی اتحادی صلیبی افواج کے ساتھ افغانستان پر چڑھائی کردی حالاں کہ 11ستمبر کے مذکورہ حملے میں کوئی افغان ملوث نہیں تھا۔ لیکن خوئے بدرا بہانہ بسیار کے مصداق امریکا نے افغانستان پر حملے کر کے اس ملک کو تباہ کر کے رکھ دیا مگر 19سال کے قبضے کے باوجود اسے مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ امریکا نیویارک حملے سے پہلے ہی افغانستان پر حملے کی تیاری کرچکا تھا اور امریکی صدر بل کلنٹن نے میزائل حملے کر کے اس کا آغاز کردیا تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر امریکا برطانیہ کا عراق پر حملہ ہے جس کے لیے عالمی جھوٹ گھڑا گیا کہ صدام کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ اس کا اعلان امریکی وزیر خارجہ جنرل کولن پاول نے کیا۔ لیکن ایسا کوئی ہتھیار (W.M.D) نہیں ملا اور بعد میں دہشت گرد کولن پاول نے معصومیت سے کہہ دیا کہ سی آئی اے نے غلط اطلاع دی تھی۔ اسی پر بس نہیں کیا بلکہ عراق کے حکمران صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی۔ پورا عالم اسلام خاموشی سے دیکھتا رہ گیا۔ امریکی فوج آج بھی عراق میں موجود ہے اور دوسری طرف ایران کی عسکری موجود گی بھی واضح ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر بھی عالم اسلام خاموش رہے گا کیوں کہ مسلم ممالک آپس میں بٹے ہوئے اور امریکا کو اپنا ’’ ان داتا‘‘ بنائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے بھی اس دہشت گردی کی مذمت نہیں کی گئی۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی وزیر خارجہ کا فون ملنے کے بعد صرف یہ کہا ہے کہ ’’ تمام فریق خطے کے امن و استحکام کے لیے تحمل کا مظاہرہ کریں ‘‘۔ سوال یہ ہے کہ خطے کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کے درپے کون ہے ؟ کیا یہ امریکا ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اس وقت عراق، شام، افغانستان، قطر، بحرین اور کویت میں امریکی اڈے موجود ہیں جہاں ایران امریکی فوجوں اور اس کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ امریکا کی کوشش ہوگی کہ وہ اس موقع پر شیعہ، سنی اختلافات کو مزید ہوا دے اور خلیج کو وسیع کردے۔ اس کا مظاہرہ گزشتہ جمعہ ہی کو سامنے آگیا۔ امریکا نے دعویٰ کیا ہے کہ عراق میں سنی اکثریتی علاقوں میں جنرل قاسم کی ہلاکت پر جشن منایا گیا۔ ایران۔ امریکا تنازع میں اضافے کے اثرات پوری دنیا سمیت پاکستان پر بھی پڑیں گے۔ ایران کے بعد اہل تشیّع کی سب سے بڑی تعداد پاکستان میں ہے چنانچہ اس وقت تمام اہل پاکستان کو متحد رہنے اور شیعہ، سنی اختلافات سے بلند ہو کر یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ امریکی حملوں میں جو ہلاک ہوئے ہیں وہ شیعہ ہونے کے باوجود مسلمان تھے۔ چنانچہ خود حکومت پاکستان کو بھی امریکی دہشت گردی کی مذمت کرنی چاہیے۔ ہم ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ امریکا کسی مسلم ملک یا مسلمانوں کا دوست نہیں اور وہ ایک ایک کر کے سب کو نقصان پہنچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس وقت کئی مسلم ممالک میں مسلمان ہی مسلمان سے نبرد آزما ہیں اور ان کی مخالفت کو امریکا، یورپ اور اسلحہ ساز ادارے ہوا دے رہے ہیں۔ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے فوری بعد تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور اگر ایران نے ردعمل میں آبنائے ہرمز بند کردی تو تیل کی قیمتیں آسمان پر پہنچ جائیں گی جس کا نقصان پاکستان کو بھی ہوگا جس کی معیشت میں سدھار کے کچھ آثار نظر آرہے ہیں۔ پاکستان کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایران اس کا پڑوسی ہے اور دوسری طرف اس کے سخت مخالف سعودی عرب سے بھی پاکستان کی دوستی ہے اور اہل پاکستان کی اکثریت حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب سے جذباتی تعلق رکھتی ہے۔ تاہم سعودی عرب نے کشمیریوں اور چین میں ایغور مسلمانوں کی حمایت سے گریز کیا ہے۔ بہرحال، یہ الگ معاملہ ہے او ہر ملک اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتا ہے، امت مسلمہ کو نہیں۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ایران میں ہیرو کا درجہ حاصل تھا۔ انہوں نے بیرون ملک خفیہ کارروائیوں کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں ایران کے اثر و رسوخ میں اضافہ کیا۔ انہوں نے ایران کے اتحادی گروہوں کو ہر ممکن امداد فراہم کی۔ قاسم سلیمانی نے عراق میں شیعہ اور کرد گروپوں کی صدام حسین کے خلاف مزاحمت میں امریکا سے تعاون بھی کیا۔ عراق اور شام میں امریکی فوج اور قاسم سلیمانی کی ملیشیائیں مل کر القاعدہ اور داعش کے خلاف کارروائی کرتی رہیں۔ لیکن امریکا انہیں اپنے لیے خطرناک سمجھنے لگا تھا اور ان کو بغداد میں امریکی سفارتخانے پر دھاوا اور کرکوک ائربیس پر راکٹ حملے کا ذمے دار قرار دیا۔ 30دسمبر 2019 کو امریکی فورسز نے مغربی عراق میں ایران نواز ملیشیا کتائب حزب اللہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملہ کیا تھا جس میں 24ارکان ہلاک ہوئے تھے۔ امریکا نے اسے کرکوک ائر بیس پر حملے کا جواب قرار دیا۔ صورت حال عجیب ہے کہ امریکا عراق، شام، لبنان اور یمن میں ایران کی موجودگی پر تو اعتراض کرتا ہے لیکن خود جہاں چاہتا ہے گھس کر تباہی پھیلا دیتا ہے۔ ترکی نے لیبیا میں فوج بھیجنے کا اعلان کیا تو امریکا نے اس کی مخالفت کردی کہ یہ حق صرف امریکا کو حاصل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مذکورہ اقدام کی مخالفت خود امریکی پارلیمان میں بھی ہو رہی ہے اور پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر اس حملے کو جارحیت قرار دیا جارہا ہے۔