کشمیر!! بھارت کی عالمی رسوائی کا نشان

124

ہانگ کانگ کے معروف اخبار ایشیا ٹائمز نے کشمیر کی صورت حال پر ایک اہم رپورٹ شائع کی ہے۔ ’’شہریت کے نئے قانون نے بھارت کے عالمی قد کو چھوٹا کر دیا‘‘ کے عنوان سے بھارتی صحافی سیکیٹ دتا کی چشم کشا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی کی پالیسیوں نے بھارت کو عالمی سطح پر کھوکھلا کر دیا ہے۔ بھارت کو کئی دہائیوں سے جاری سفارتی فتوحات کے بعد اب عالمی سطح پر غیر معمولی شکوک وشبہات اور بے توقیری کا سامنا ہے۔ بھارتی حیثیت کو عالمی سطح پر کھوکھلا کرنے میں نریندر مودی کی تین اہم پالیسیوں مذہب کی بنیاد پر شہریت کے قانون، کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور نوٹ بندی نے اہم کردار ادا کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس اپریل مئی میں ہونے والے انتخابات میں نریندر مودی نے دوسری بار حکومت کے لیے بھاری کامیابی حاصل کی لیکن ابتدائی چند مہینوں ہی میں پالیسیوں کی بڑی تبدیلیوں نے اب ان کی حکومت کو عالمی سطح پر مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ شہریت بل کے حوالے سے بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ شہریوں کا قومی اندراج ہونے کے بعد مسلمانوں کو حق شہریت سے محروم کردیا جائے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے اسٹرٹیجک پارٹنر امریکا کے دو صدارتی امیدوار کشمیر کے موجودہ حالات پر ناپسندیدگی کا اظہار کر چکے ہیں۔ صدارت کی دوڑ سے باہر ہوجانے والی ایک اور امیدوار کاملہ حارث نے بھی کشمیر کے حالات پر تشویش ظاہر کی ہے۔ امریکی کانگریس کی رکن پامیلا جے پال نے کشمیر کے حوالے سے ایک اہم رپورٹ تیار کی ہے۔ اس رپورٹ نے دو پلس دو یعنی بھارت اور امریکا کے وزرائے خارجہ اور دفاع کی ملاقات پر بھی منفی اثر ڈالا جہا ں اہم اسٹرٹیجک معاملات پر بات ہونا تھی۔ نہ صرف ایشیا ٹائمز کی یہ رپورٹ بلکہ بھارت میں تشکیل پانے والا نیا منظر نامہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ طاقت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت اور صداقت کا نام نہیں۔
زمینی اور انسانی طاقت بہت کچھ تو ہو سکتی ہے مگر سب کچھ نہیں کیونکہ سب طاقتوں سے بڑی طاقت ایک ابدی حقیقت اور سچائی کی صورت موجود ہے وہ طاقت قادر مطلق کی ہے۔ انسانی اور خود ساختہ زمینی خدائوں کی طاقت کی حد جہاں ختم ہوکر بے بسی میں ڈھل جاتی ہے وہیں سے قادر مطلق کی طاقت کی حد شروع ہوتی ہے۔ ایشیا ٹائمز کا کشمیر کو بھارت کی عالمی رسوائی کا سامان اور شرمندگی کی بنیاد تسلیم کرنا اس حقیقت کا اعتراف ہے۔ کشمیر کو بھارت کے قومی اور جغرافیائی وجود میں رکھ کر دیکھیں تو یہ ایک وسیع عریض دیوہیکل ملک میں ایک نقطے کی مانند ہے اور ڈیڑھ ارب انسانوں میں اسی لاکھ افراد کی حیثیت اور وقعت ہی کیا؟ اس سے زیادہ آبادی تو بھارت کے کسی چھوٹے سے شہر کی بھی ہو سکتی ہے۔ وسائل، قوت اور آبادی کے اسی عدم تناسب کی بنا پر بھارت نے کشمیر کو ترنوالہ سمجھ کو ہضم اور ہڑپ کرنے کا راستہ اپنایا تھا۔ قدرت کو اس چیونٹی کے ہاتھوں ہاتھی کی موت مطلوب تھی کہ پانچ اگست کو طاقت کے نشے میں چور نریندر مودی کا پائوں کشمیر نام کی ایک دلدل میں پڑ گیا اس کے بعد سے نریندر مودی حماقتوں کی ایک وسیع دلدل میں دھنستا ہوا ’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں‘‘ کی عملی تصویر بن کر رہ گیا ہے۔ جس کشمیر میں ’’آزادی آزادی‘‘ کے نعروں کو دبانے اور یہ نعرے بلند کرتی زبانوں کو خاموش کرانے کے لیے بھارت نے لاکھوں فوج مسلط کر رکھی ہے اور یہ فوج کشمیرکو ایک بڑی جیل اور قتل گاہ بنائے ہوئے ہے ’’ہم چھین کے لیں گے آزادی‘‘ کے وہ نعرے آج دہلی سے آسام تک گونج رہے ہیں۔ جن نعروں کو کشمیر میں سن کر بھارتیوں کے کان کھڑے ہو جاتے اور بھنویں تن جاتی تھیں آج بھارت کے کروڑوں افراد میں یہ نعرے مقبولیت حاصل کر رہے ہیں اور آسام جیسی کئی ریاستوں کو بالکل کشمیریوں کی طرح ہی ان نعروں کے پس منظر میں حق خود ارادیت کے مطالبات کرنے لگی ہیں۔ بھارت نے کشمیر کو قابو کرتے کرتے اپنے وجود کے اندر کئی کشمیر اور کئی زخم پیدا کر دیے ہیں۔ اسی لاکھ آبادی کو خاموش کراتے کراتے کروڑوں کو زبان کھولنے کی راہ دکھلا دی ہے۔ یہ مکافات عمل اور تقدیر کا انتقام ہے۔
طاقت کا پیمانہ جب لبالب بھر جاتا ہے تو پھر طاقت کے اندر سے کمزور کا فطری اور خودکار نظام حرکت میں آجاتا ہے۔ آج مودی کے بھارت کے ساتھ تقدیر یہی کھیل کھیل رہی ہے۔ یہ تو بے توقیری کی اندرونی صورت حال ہے۔ کشمیر نے بھارت کو عالمی سطح پر بھی کہیں کا نہیں چھوڑا۔ امریکا جہاں بھارت کے حکمرانوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا تھا۔ پاکستان کی مخالفت میں امریکی بھارت کو جمہوری، لبرل، سیکولر ملک جان کر اس پر صدقے واری جارہے تھے اب بھارت ایک نئے امیج کے ساتھ متعارف ہو رہا ہے۔ مضمون نگار کا یہ جملہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ واشنگٹن میں بھارت کے حوالے سے صبر کا پیمانہ لبریز ہو کر چھلک جانے کو ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے مودی کو ہٹلر کا نیا جنم قرار دینے اور باور کرانے کا جو عمل شروع کیا تھا کشمیر کے بعد شہریت قانون نے مغربی دنیا میں اس تاثر کو مزید گہرا کر دیا ہے اور مغربی میڈیا بھی دبے لفظوں میں مودی کی شکل میں ایک ہٹلر اُبھرنے کے تصور کی حمایت کرتا نظر آرہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نریندرمودی کو عمارت سے باہر جس خفت کا سامنا کرنا پڑا تھا اس نے بیرونی دنیا میں بسنے والے بھارتیوں کے سر شرم سے جھکا دیے تھے۔ لندن سے نیویارک تک برلن سے پیرس تک پاکستان اور کشمیری عوام نے بھارتی حکمرانوں کا جس پامردی اور جرات سے تعاقب کیا اپنی مثال آپ ہے۔ انہوں نے اپنے منفرد مظاہروں سے مغربی دنیا کی آنکھوں پر بندھی پٹی کھولنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بھارتی ایجنسیوں نے بیرون ملک بسنے والوں کے اس بے ساختہ اور فطری احتجاج کے جواب میں بھارتی باشندوں کو لاکھڑا کرنے کی کوشش کی مگر بھارتیوں کے اجتماعی ضمیر نے اس سیلِ رواں کے
آگے کھڑا ہونے سے معذوری ظاہر کی کیونکہ مغرب کے کھلے معاشروں میں رہنے والے ان بھارتی باشندوں کے پاس اسی لاکھ آبادی کو یرغمال بنانے، ان سے موبائل اور انٹرنیٹ جیسی سہولت چھیننے اور مسجدوں کو تالے ڈال کر عبادت جیسے فرض کی ادائیگی سے روکنے اور اسکولوں کو بند رکھ کر تعلیم کا حق چھیننے کا دفاع کرنے کو دلائل تھے نہ الفاظ۔ اس سے بھی بڑھ کر کشمیر کے پرجوش حامیوں کے مقابل کرائے کے مظاہرین کا کھڑا رہنا کئی مقامات پر ناممکن ہو کر رہ گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر دورہ امریکا میں امریکی کانگریس کے ارکان کا سامنا نہ کر سکے اور کشمیر کے حوالے سے کانگریس کے ارکان کے متوقع سوالوں سے گھبرا کر طے شدہ ملاقات منسوخ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ من موہن سنگھ کے شائننگ انڈیا کا بھانڈا مودی نے بیچ چوراہے پہ پھوڑ دیا ہے اور بھارت کا سارا میک اپ چند فیصلوں سے دھل کر رہ گیا ہے۔ کشمیر بھارت کا سیاسی ’’واٹر لو‘‘ ثابت ہوگیا ہے۔