غامدیانہ فکر اور اس کی ہولناکی

402

جاوید احمد غامدی نے جو ’’شاگرد‘‘ پیدا کیے ہیں خورشید ندیم ان میں سے ایک ہیں۔ بلکہ اس سلسلے میں یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ خورشید ندیم غامدی صاحب کے سب سے ’’اہل‘‘ شاگرد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم گاہے گاہے خورشید ندیم کے کالموں کا تجزیہ کرتے رہتے ہیں۔ چوں کہ خورشید ندیم غامدی صاحب کے شاگرد ہیں اس لیے ان کے کالموں کا تجزیہ دراصل غامدی صاحب کی فکر کا تجزیہ بھی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو خورشید ندیم پر کچھ لکھنے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔
خورشید ندیم نے اپنے ایک حالیہ کالم میں ایشیا سرخ ہے اور ایشیا سبز ہے کہنے والوں کا مذاق اُڑایا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ کہنے والے پہلے ایشیا سے تو پوچھ لیں کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ اس کے بعد خورشید ندیم نے لکھا۔
’’اہل ایشیا کو کسی خاص رنگ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ جو کبھی سرخ تھے، اب رنگ بدل چکے ہیں، جو جتنے سبز تھے، اب بھی اتنے ہی سبز ہیں، رنگوں کا انتخاب حالات کرتے ہیں، ہر عہد کا اپنا ایک رنگ ہے، یہ زندگی کا رنگ ہے، اس کا تعلق تہذیبی ساخت سے کم اور بقا کی جبلت سے زیادہ ہے، جو یہ راز جان لیتے ہیں وہ کسی ایک رنگ پر اصرار نہیں کرتے، وہ اپنے حقیقی رنگ اور عصری رنگ میں مطابقت تلاش کرتے ہیں، یوں اپنی انفرادی شناخت کے ساتھ اپنی بقا کا سامان کرتے ہیں، یہ سادہ سا قانونِ قدرت ہے جس کا تعلق اس دنیا کے ساتھ ہے، مذہبی پیرائے میں بیان کیا جائے تو یہ سنتِ الٰہی ہے۔‘‘
(روزنامہ دنیا۔ 7 دسمبر 2019ء)
خورشید ندیم کی تحریر کا یہ اقتباس ان کی ’’زمانہ پرستی‘‘ کا اشتہار ہے۔ ان کے بقول ’’عصر کا رنگ‘‘ یا زمانے کا رنگ ہی زندگی کی اصل حقیقت ہے اور جو لوگ یہ راز جان لیتے ہیں وہ عصر اور اس کے رنگ کے ساتھ مطابقت پیدا کرتے ہیں۔ خورشید ندیم کا یہ تجزیہ بھی کم ہولناک نہ تھا مگر انہوں نے اس تجزیے کی ہولناکی کو یہ کہہ کر اور بڑھادیا کہ عصر سے ہم آہنگی ہی ’’قانون قدرت‘‘ ہے بلکہ ان کے بقول ’’سنتِ الٰہی‘‘ ہے۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔
اسلام کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ اسلام ’’زمانی‘‘ نہیں ’’لازمانی‘‘ حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شریعتوں کو تھوڑا بہت بدلا ہے مگر دین سیدنا آدمؑ سے رسول اکرمؐ تک ایک ہی رہا ہے۔ دین کے ’’لازمانی‘‘ ہونے کی اس سے بڑی دلیل اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ دین زمانے کو بدلنے کے لیے ہے زمانے کے مطابق بننے کے لیے نہیں۔ رسول اکرمؐ کا ’’عصر‘‘ یا ’’زمانہ‘‘ تو کفر اور شرک میں ڈوبا ہوا تھا مگر رسول اکرمؐ نے اپنے عہد کے تمام انسانوں کو اپنے ’’عصر‘‘ سے بلند ہونے کا درس دیا اور صرف درس نہیں دیا انہیں ان کے زمانے سے بلند کرکے دکھایا۔ انہیں کفر اور شرک سے نجات دلا کر ’’لازمانی اسلام‘‘ سے ہم آہنگ کیا۔ رسول اکرمؐ سے قبل یہی کام سیدنا عیسیٰؑ، سیدنا موسیٰؑ، سیدنا ابراہیمؑ اور سیدنا نوحؑ بھی کرچکے تھے۔ عصر یا زمانے کو معیار بنالیا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر زمانہ سیکولر ہوگیا ہے تو ہمیں خود کو سیکولر بنانے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ زمانہ اگر سوشلزم کے رنگ میں رنگ گیا ہے تو ہمیں خود کو سوشلزم کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ زمانے پر اگر کفر چھا گیا ہے تو ہمیں کفر کے آگے سر جھکا دینا چاہیے۔ عصر پر اگر شرک کا غلبہ ہوگیا ہے تو ہمیں بھی شرک کو Idealize کرنا چاہیے۔ اور اگر اتفاق سے زمانہ پر اسلام کا رنگ چڑھ گیا تو ہمیں اسلام کو حق مان کر نہیں ’’زمانے کا رنگ‘‘ تسلیم کرکے اسلام کے آگے سر جھکا دینا چاہیے۔ خورشید ندیم کی دلیل کی رو سے اگر کوئی مسلمان زمانے پر سیکولر ازم یا لامذہبیت کے غلبے کی وجہ سے ’’سیکولر‘‘ ہوگیا ہے تو اس کا طرزِ عمل معاذ اللہ ’’قانون قدرتِ‘‘ یا ‘‘سنّتِ الٰہی‘‘ کے مطابق ہوگا۔ توبہ توبہ۔ غامدی صاحب کے شاگرد نے کیا فرما دیا ہے۔
قرآن مجید مسلمانوں کے لیے معنی کا سرچشمہ ہے۔ اسی قرآن کی ایک سورۃ کہتی ہے۔
’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے۔ نیک اعمال کرتے رہے۔ حق بات کی تلقین اور صبر کی تائید کرتے رہے‘‘۔
یہ سورئہ مبارکہ بتا رہی ہے کہ انسان کو ’’زمانے کے مطابق‘‘ نہیں ’’حق کے مطابق‘‘ ہونا چاہیے۔ اگر انسان ایمان نہ لائے، ایمان کے مطابق نیک اعمال نہ کرے۔ ایمان کے مطابق حق بات کی تلقین کا فرض ادا نہ کرے اور ان تمام کاموں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات اور شدائد پر صبر نہ کرے یا صبر کی تاکید نہ کرے تو چاہے وہ ’’عصر‘‘ سے کتنا ہی ہم آہنگ ہو وہ خسارے میں ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص ایمان نہ لائے، اس کے مطابق نیک اعمال نہ بجا لائے اور حق کی تلقین اور صبر کی روش سے دور ہو تو چاہے وہ عصر سے ایک ہزار فی صد ہم آہنگ ہو وہ ناکام و نامراد آدمی ہے۔ البتہ اگر اسلام جو ’’الحق‘‘ ہے وہ اپنے عقاید کی بنیاد پر زمانے کو بدل دے تو پھر زمانے سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے کیوں کہ اس زمانے سے ہم آہنگ ہونا ’’الحق‘‘ سے ہم آہنگ ہونا ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کے پیدا کردہ زمانے میں بھی اصل اہمیت اسلام کی ہے زمانے کی اہمیت ثانوی ہے۔
مذکورہ بالا اقتباس میں خورشید ندیم نے ایک اور ہولناک بات کہی ہے اور وہ یہ کہ ہر عہد کے
رنگ کا تعلق کسی ’’تہذیبی ساخت‘‘ سے کم اور ’’بقا کی جبلت‘‘ سے زیادہ ہے۔ ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خورشید ندیم کے لیے زیادہ اہمیت صرف ’’زندہ رہنے‘‘ کی ہے زندہ رہنے کی ’’معنویت‘‘ کی نہیں۔ حالاں کہ ایک مسلمان کے لیے زندہ رہنے سے اہم بات زندگی کا بامعنی ہونا ہے۔ صرف زندہ تو کتّے اور بلیاں بھی رہ لیتے ہیں اور اس سلسلے میں ’’بقا کی جبلت‘‘ ان کے بہت کام آتی ہے مگر یہ جبلت کتّے اور بلیوں کی زندگی میں کوئی گہرے معنی پیدا نہیں کرتی۔ اس کے برعکس ایک صاحب ایمان کے لیے صرف زندہ رہنے کا کوئی مفہوم ہی نہیں۔ اس کے لیے زندگی کی ’’معنویت‘‘ ہی بجائے خود ’’زندگی‘‘ ہے۔ بدقسمتی سے خورشید ندیم کو تہذیب کی ساخت کی اہمیت کا بھی اندازہ نہیں۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہر تہذیب کی ساخت اس کے بنیادی عقاید یا اس کے بنیادی تصورات سے پیدا ہوتی ہے اور یہ ساخت ہی اس کے زمانے کے ’’رنگ‘‘ کا تعین کرتی ہے۔ سوشلزم نے جو چھوٹا سا ’’تہذیبی تجربہ‘‘ خلق کیا وہی سوشلسٹ معاشروں اور سوشلسٹ ریاستوں میں زمانے کا اصل رنگ تھا۔ ایک حد تک ہی سہی سوشلسٹ معاشرے غیر طبقاتی تھے۔ ان معاشروں میں 99 فی صد لوگوں کا رہن سہن ایک جیسا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان معاشروں کا کوئی شخص بھی ’’ذاتی ملک‘‘ کا حامل نہیں تھا۔ ان معاشروں کا ادب ’’سوشلسٹ ادب‘‘ کہلاتا تھا۔ حتیٰ کہ سوویت یونین کی سائنس بھی ’’صرف سائنس‘‘ نہیں تھی بلکہ وہ ’’سوویت سائنس‘‘ یا ’’سوشلسٹ سائنس‘‘ کہلاتی تھی۔ اس کے برعکس سرمایہ دارانہ سماج اور سرمایہ دارانہ ریاست کے ’’زمانے‘‘ پر اس سرمایہ دارانہ تہذیب کا رنگ غالب ہے جو سرمایہ دارانہ تہذیب کے بنیادی عقاید سے پیدا ہوئی ہے۔ اسی طرح عہد رسالتؐ اور عہد خلافت سے نمودار ہونے والی تہذیبی ساخت کا مسلم معاشرے کے ’’زمانے‘‘ پر گہرا اثر تھا اور اسلامی تہذیب اپنے مخصوص عقاید سے اُبھری تھی۔ خورشید ندیم کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اسلام جبلت کو نظر انداز نہیں کرتا مگر وہ مسلمانوں کو ’’جبلت‘‘ کے بجائے ’’شعور‘‘ کے تابع بھی کرنا چاہتا ہے اور جبلت کو ’’ترفعّ‘‘ یا Sublimation کے عمل سے گزار کر کچھ سے
کچھ بنادیتا ہے۔ بلاشبہ ’’بقا کی جبلت‘‘ اہم ہے مگر اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ میں ’’فنا کی جبلت‘‘ بقا کی جبلت سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اسلام مسلمانوں کو ’’فنا فی اللہ‘‘ کی تعلیم دیتا ہے اور شہادت کی موت کو ایک بہت ہی بڑا ’’Ideal‘‘ بنا کر پیش کرتا ہے۔ اس لیے کہ شہادت کے ذریعے انسان کو جو ’’بقا‘‘ حاصل ہوتی ہے اس کے سامنے صرف ’’جبلی بقا‘‘ کی کوئی اہمیت نہیں۔
خورشید ندیم صاحب نے اپنے کالم میں اسلام اور مولانا مودودی کی تعبیر مذہب پر بھی ہاتھ صاف کیا ہے اور یورپ کو مسلمانوں کے لیے گویا ’’ Ideal‘‘ بنا کر پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں۔
’’پاکستان اور ایران میں یہ شعوری کوشش کی گئی کہ ان کی مذہبی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں جدید جمہوری ریاست بنانا چاہیے۔ ان دو ممالک کو سنی اور شیعہ مذہبی و سیاسی افکار کی تشکیل نو کے مراکز قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں مولانا مودودی اور خمینی صاحب کی حیثیت مجدد کی ہے۔ مولانا مودودی نے خلافت کی جگہ اسلامی ریاست کے عنوان سے ’’تھیوڈیموکریسی‘‘ کا تصور دیا۔ یہ مذہب اور جمہوریت کا ایک ملغوبہ ہے۔ پاکستان کا آئین اس تعبیر کا نمائندہ ہے۔ خمینی صاحب نے ’’ولایتِ فقیہ‘‘ کے عنوان سے تصورِ امامت کی جدید تعبیر کی، ایران کا آئین جس کی عملی تعبیر ہے وہاں شورائے نگہبان کے نام سے علما کی بالادستی قائم کردی گئی۔ لیکن صدر اور پارلیمان کا انتخاب عوام کے ووٹوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
یہ دونوں تجربات بہت اہم ہیں۔ انہیں مسلمانوں کے فکری سفر میں اہم پڑائو کہا جاسکتا ہے، تاہم یہ دونوں تعبیرات وقت کی کسوٹی پر پورا نہیں اتر سکیں۔ پاکستان اور ایران، دونوں مقامات پر مذہب و سیاست کی کشمکش کا کوئی ایسا حل تلاش نہیں کیا جاسکتا جو دونوں کے لیے قابل قبول ہو، فکری پراگندگی ان دونوں ممالک کے رگ و پے میں اتر چکی۔
اہل یورپ نے اس کشمکش کا حل سیکولر ازم کی صورت میں ڈھونڈ لیا اور وہ اس پر مطمئن ہوگئے۔ ہمارے مسائل نہ اسلام حل کرسکا اور نہ سیکولر ازم۔ میرا خیال ہے کہ دونوں تصورات کے اسیر اس بات کو سمجھتے ہیں مگر گروہی شناخت یا عصبیت اس کے اعتراف میں مانع ہے۔ اب ایک گروہ نے سرخ پرچم لہرایا تو دوسرے کے ہاں خطرے کی گھنٹی بج گئی۔ یہ بقا کی فطری جبلت کے اظہار کے سوا کچھ نہیں‘‘۔
ایران کا قصہ اور ہے البتہ پاکستان میں اسلام یا مولانا کی تعبیر کے ناکام ہونے کی بات سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ خورشید ندیم بتائیں کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے کب اسلام کو اپنے امکانات کے اظہار کے مواقع دیے؟ جہاں تک ’’تھیوڈیموکریسی‘‘ کے تجربے کی ناکامی کا سوال ہے تو پاکستان کے حکمران طبقے نے نہ ’’تھیو‘‘ کو چلنے دیا نہ ’’ڈیموکریسی‘‘ کو۔ خورشید ندیم کو پاکستان میں مذہب اور سیاست میں جو کشمکش نظر آرہی ہے وہ اس لیے ہے کہ سیاست مذہب کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ خورشید ندیم نے یورپ اور سیکولرازم کا تذکرہ ایک Ideal کے طور پر کیا ہے مگر سیکولر ازم یورپ کا تاریخی اور تہذیبی تجربہ ہے پاکستان یا امت مسلمہ کا نہیں۔ چناں چہ سیکولرازم ہمیں وہ کچھ بھی نہیں دے سکتا جو اس نے یورپ کو دیا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ خورشید ندیم ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ ایشیا کو کسی خاص رنگ سے دلچسپی نہیں۔ دوسری طرف خورشید ندیم سیکولرازم سے یورپ کی شادی کا ذکر اس طرح کرتے ہیں۔جیسے ایشیا کے ’’دکھوں‘‘ اور ’’مسائل‘‘ کا ’’مداوا‘‘ بھی صرف سیکولر ازم کرسکتا ہے۔
خورشید ندیم کہنے کو ایک مذہبی انسان ہیں مگر ان کے یہاں مذہب کا ذکر جس تحقیر کے ساتھ ہوتا ہے اس کی ایک مثال ان کے زیر بحث کالم میں بھی موجود ہے۔ لکھتے ہیں۔
’’آج بھی دنیا کی اقوام بقا کی جنگ میں مصروف ہیں۔ وہ یہ جاننے کی کوشش میں ہیں کہ آج زندگی کو درپیش چیلنج کون سے ہیں اور وہ کیسے ان کا سامنا کرسکتی ہیں۔ دوسری طرف ہماری ترجیحات کیا ہیں کوئی ایشیا کو سرخ بنارہا ہے اور کوئی سبز۔ اصل چیلنج کا شعور کہیں نہیں ہے۔ یہ سیاست میں ہے نہ مذہب میں، صحافت میں ہے نہ ادب میں، سماج میں ہے نہ ریاست میں، ایشیا کے رنگ سازوں کو پہلے خود ایک رنگ بننا ہوگا۔ یہ مکالمے سے ہوگا، محاذ آرائی سے نہیں، اور ہاں، یہ مذہب کا کم اور عقل کا مسئلہ زیادہ ہے‘‘۔
آپ ذرا اس اقتباس کا اختتام تو دیکھیے۔ خورشید ندیم کہہ رہے ہیں کہ مذہب اور عقل دو الگ چیزیں ہیں اس لیے انہوں نے کہا ہے کہ مسائل کے حل کا تعلق مذہب سے کم ہے اور عقل سے زیادہ ہے۔ مغرب پرست لوگ مذہب کو ایک ’’غیر عقلی‘‘ چیز سمجھتے ہیں یا کم از کم وہ مذہب کے ساتھ ’’کم عقلی‘‘ کو تو ضرور وابستہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ عقل کو مذہب سے آزاد دیکھتے ہیں اور اسے مذہب سے بڑی چیز سمجھتے ہیں۔ خورشید ندیم نے بھی اپنے کالم میں یہی کہا ہے۔ حالاں کہ مذہب اور شعور ہم معنی الفاظ ہیں۔ جہاں اسلام ہے وہیں حقیقی شعور ہے۔ جہاں اسلام نہیں وہاں عقل کی موجودگی محض ایک مفروضہ ہے۔ اس لیے کہ جو عقل وحی کے تابع نہیں وہ ہماری تہذیب میں عقل کہلانے کی مستحق نہیں۔