محمد ایوب
پاکستان میں ہر سال ’’عالمی اردو کانفرنس‘‘ منعقد کی جاتی ہے۔ دسمبر کے مہینے میں عالمی اردو کانفرنس کراچی میں منعقد ہوئی۔ حسب روایت دنیا بھر کے ادیبوں، شاعروں، نثر نگاروں، فنکاروں اور کچھ دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں کو مدعو کیا گیا۔ کیا ایسی کانفرنسوں میں صرف شاعروں اور نثر نگاروںکو مدعو کرنے سے اردو زبان دیگر عالمی زبانوں کی طرح ترقی کرسکے گی؟ کیا اُردو زبان کی ترقی کا دارومدار صرف افسانوں اور غزلوں پر ہی ہے؟ شاعر و ادیب قوم کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے ہیں، اقبال، فیض اور جالب کی شاعری نے تحریکوں کو جنم دیا اور قوم کو باطل سے ٹکرانے کا حوصلہ اور راہ دکھائی ہے۔ تحریک پاکستان کی کامیابی میں اقبال کی شاعری کا اہم کردار رہا ہے۔ مگر اردو زبان کو شاعری اور افسانے کی کانفرنسوں تک محدود نہ کیا جائے بلکہ اس کی ترقی و ترویج کے لیے حقیقی کام کیا جائے تاکہ یہ زبان زندہ بھی رہے اور ملک کی ترقی میں کردار بھی ادا کرسکے۔ اُردو زبان کے ماہرین اور حکومتی زُعماء اسے اعلیٰ تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر کب توجہ دیں گے؟ قیام پاکستان میں اردو زبان کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔ جس کی وجہ سے اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔ اردو صوبوں کے درمیان رابطہ کا واحد اور موثر ذریعہ ہے۔ قیام پاکستان کو 72 برس گزر چکے ہیں۔ آخر کب میڈیکل، انجینئرنگ، معاشیات، اقتصادیات، بینکنگ، چارٹرڈ اکائونٹس و دیگر اعلیٰ سماجی، سائنسی و دیگر جدید علوم کو سلیس اردو میں منتقل کر کے ’’اعلیٰ تعلیمی نصاب‘‘ تیار کرنے کا فریضہ انجام د یا جائے گا؟ تاکہ اردو زبان کے ساتھ ملک بھی حقیقی معنوں میں ترقی کر سکے۔
پاکستان میں قومی زبان اردو اور سرکاری زبان انگریزی ہے جس سے غلامانہ سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔ سرکاری سطح پر قومی زبان کی پزیرائی نہ ہونے کی وجہ سے قوم گومگو کا شکار ہے۔ ایک خاص طبقہ اردو میڈیم کو اچھا اور تعلیم یافتہ نہیں سمجھتا۔ 72 برس گزر جانے کے بعد بھی اردو زبان سرکاری سرپرستی سے محروم ہے۔ آج اُردو عالمی زبان بن چکی ہے، دنیا بھر میں اردہ سمجھنے، بولنے، پڑھنے اور لکھنے والے لوگ موجود ہیں مگر عصر حاضر کے جدید علوم کو اردو زبان میں منتقل نہیں کیا جاسکا ہے۔ یہ قومی خدمت سرانجام دینے کے لیے میڈیکل، انجینئرنگ، معاشیات، اقتصادیات، بینکنگ، چارٹرڈ اکائونٹس و دیگر اعلیٰ سماجی، سائنسی و دیگر جدید علوم کے ماہرین کو میدان میں آنا چاہیے۔ چین، ترکی، جرمنی اور بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک کی جامعات میں اردو ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جا رہی ہے لیکن ہمارے ملک میں اپنی قومی زبان کے فروغ کے لیے کوئی ٹھوس کام نہیں ہو رہا یہاں تک کہ مائیکرو سافٹ ویئر میں اردو ٹائپنگ اور ان پیج پر بھی کسی اور ملک نے کام کیا ہے۔ آج بھی جب سالانہ اُردو کانفرنس ہوتی ہے تو اردو کی ترویج اور نفاذ پر کسی حکمت عملی پر تبادلہ خیال نہیں ہوتا جب کہ یورپی اقوام نے تما م علوم کو اپنی اپنی زبانوں میں منتقل کر کے ہی ترقی کی ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ جتنے سائنسی علوم تھے، یورپ نے عربی زبان اور مسلمان سائنسدانوں کی کُتب سے اپنی اپنی زبانوں میں منتقل کیے اور پھر ترقی اور عروج اُن کا نصیب بن گیا۔ ہم اردو زبان کو تعلیمی نظام کا حصہ بنائیں گے، سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں نافذ کریں گے تو ہی صحیح معنوں میں اردو زبان ترقی کرے گی۔ سب سے زیادو ضرورت سائنس و ٹیکنالوجی اور اقتصادی علوم کو آسان اُردو زبان میں منتقل کرنے کی ہے کیونکہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان انہی علوم سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے محکوم ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زمانے میں یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ بات نیت کی ہے اور سب سے بڑا قدم جو بیش بہا نفسیاتی اور جذباتی اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ وزیر، مشیر اور اعلیٰ سرکاری کارندوں پر یہ پابندی عائد کر دی جائے کہ سرکاری تقریبات میں وہ اْردو میں تقریر کریں گے۔
پاکستان کی اقتصادی ترقی میں بڑی رکاوٹوں میں سب سے بڑی رکاوٹ ’’طبقاتی نظام تعلیم‘‘ ہے۔ اعلیٰ تعلیم مخصوص ’’ایلیٹ کلاس‘‘ تک محدود ہو کر رہ گئی جس کی وجہ عصر حاضر کے اعلیٰ سائنسی، معاشی اور اقتصادی علوم کی کتابوں کا بدیسی بالخصوص انگریزی زبان میں دستیاب ہونا ہے۔ پاکستان کا عام شہری اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے کیونکہ گریجویشن کے بعد تعلیم عام شہری کی پہنچ سے کوسوں دور اور انتہائی مہنگی ہوتی ہے اور اس کے علاوہ سرکاری اسکول اور کالجوں سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات انگریزی زبان پر اتنی دسترس نہیں رکھتے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں۔ اگر 2002ء سے آج تک کی پاکستان کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں چند چہرے اور خاندان ہی بار بار نظر آتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ’’ایلیٹ کلاس‘‘ نے عام پاکستانی کی ترقی کے تمام راستے مسدود کردیے ہیں جس کا خاتمہ قومی زبان کے مکمل نفاذ سے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اس کلاس کے لوگوں کے بچے نہ تو عام پاکستانی شہریوں کے بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی ایلیٹ کلاس عام پاکستانیوں کے ساتھ علاج کرانا پسند کرتی ہے۔ اس کلاس نے اپنے لیے ہر سہولت کا الگ سے انتظام کیاہوا ہے۔ ملک سے ’’طبقاتی نظام‘‘ کا خاتمہ ’’طبقاتی نظام تعلیم‘‘ کے خاتمہ کے ذریعے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ اُردو زبان کو ملک بھر میں مکمل طور پر نافذ کیا جائے اور اردو کے نفاذ میں حائل تمام رکاوٹیں دور کی جائیں۔ اردو زبان کی سرکاری سرپرستی کی جائے اور تمام جدید علوم کا سلیس اردو زبان میں ترجمہ کرکے اسے تعلیمی نظام کا حصہ بنایا جائے۔ 1973 کے آئین میں بالکل واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ نفاذ آئین کے ٹھیک 15 برس بعد اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا جائے گا، لیکن 1988کو گزرے ہوئے بھی ایک مدت ہو گئی مگر اردوکو اس کا جائز مقام نہیں دیا گیا۔ اردو زبان کے نفاذ میں ایلیٹ کلاس کے بعد بیورو کریسی بھی ایک رکاوٹ ہے۔ باوجود ہزاروں کوششوں کے اردو زبان اب تک نافذ نہیں ہو سکی۔