امریکا کے ہاتھوں جنرل قاسم سلیمانی کا قتل

315

قاسم جمال
عراق میں امریکی فضائی حملے میں ایران پاسدران انقلاب کی اعلیٰ تربیت یافتہ قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی سمیت 8افراد شہید ہو گئے ہیں۔ قاسم سلیمانی مشرق وسطیٰ میں ایرانی پالیسی کے معمار تھے اور انہوں نے امریکی مفادات پر ضرب کاری لگائی تھی۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی فضائی حملے میں جنرل قاسم سلمانی کے قتل کی سخت مذمت اور جنرل قاسم سلمانی کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے اور اسے امریکا کی بہت بڑی غلطی قرار دیا۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے مطابق جنرل قاسم سلیمانی پر امریکی فضائی حملہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں ہوائی اڈے کے باہر کیا گیا جس میں جنرل سلیمانی کے اعلیٰ مشیر اور عراقی ملیشیاکمانڈر ابو مہدی المہدس بھی مارے گئے۔ بلا شبہ اس واقعے نے پورے مشرقی وسطیٰ کو ایک نئی جنگ کی جانب دھکیل دیا ہے۔ پوری دنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور یہ قتل پورے خطے کو غیر مستحکم کرے گا۔
جنرل سلیمانی ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ 13سال کی عمر میں انہوں نے مزدوری کر کے اپنے گھر والو کا پیٹ پالا۔ 1979 میںوہ خمینی فورس میں شامل ہوئے۔ 1988 میں وہ کرد فورس کے سربراہ مقرر ہوئے۔وہ مشرق وسطیٰ میں ایرانی مفادات کے ماسٹر مائنڈ سمجھے جاتے تھے اور امریکا،سعودی عرب،اسرائیل اور بحرین انہیں کافی عرصے سے واچ کر رہا تھا۔ایران جو تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے اور دنیا کے پانچ بڑے تیل پیدا کرنے والے ملکوں میںشامل ہے لیکن اس کے باوجود ایران عراق جنگ جس میں دس لاکھ سے زائد افراد مارے گئے تھے اور ایران کی معیشت آج تک سنبھل نہیں سکی ہے۔امریکا ودیگر ممالک کی جانب سے عائد کردہ معاشی پابندیوں نے بھی ایران کو کمزور کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود آج تن تنہا امریکا کے خلاف کھڑا ہے اور امریکا کو چیلنج کر رہا ہے۔ جنرل سلیمانی کے قتل پر روس، لبنان، شام، فلسطین حماس نے سخت مذمت کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان نے دونوںممالک کو صبرتحمل کی تلقین کی ہے۔جنگ کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں کیونکہ جنگ خود ایک مسئلہ ہے۔افغانستان میں چالیس سے زائد ملکوں کی فوج کے ہمراہ امریکا نہتے افغانیوں پر چڑھ دوڑا لیکن آج پندرہ سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امریکا اپنے زخم چانٹتے ہوئے افغانستان سے نکلنے کا راستہ تلاش کر رہا ہے۔ موجودہ حالات میں امریکا کی خواہش ہوگی کہ ایران براہ راست امریکا سے جنگ کرنے کے بجائے ایران اور سعودی عرب آپس میں لڑ مریں اور وہ دور بیٹھ کر تماشا دیکھے اس سلسلے میں بڑے عرصے سے بساط بچھائی جا رہی ہے۔ امریکا نے سعودی عرب کو اپنے پنجے میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ اسلامی فوج کے نام پر اپنے مفادات کے لیے بنائی جانے والی فورس کے قیام پر کئی ممالک کے تحفظات ہیں اگر امریکا اپنی ان سازشوں میں کامیاب ہوگیا تو یہ ایک بڑا المیہ اور مسلمانوں کا بڑا نقصان ہوگا۔ جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد ہی تیل کی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ دنیا انارکی کی کیفیت سے دوچار ہے اور امریکا نے بارود کو ماچس دکھا دی ہے۔
جنرل سلیمانی کے قتل پر پوری دنیا میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں اور امریکا کے خلاف سخت نفرت کا اظہار کیا جا رہا ہے کیونکہ دنیا کو معلوم ہے کہ اگر یہ جنگ شروع ہوئی تو پھر بات بہت دور تک جائے گی۔ ایران کی ایٹمی صلاحیتوں کا سب کو علم ہے دور تک اپنے اہداف کو ہٹ کرنے والے میزائل ٹیکنالوجی سے لیس ایران بڑے عرصے سے امریکا کی آنکھوں میں کھٹک رہا تھا۔ خدانخواستہ اگر یہ جنگ شروع ہوگئی تو افغانستان سے لیکر شام تک اور شام سے لیکر پورے مشرق وسطیٰ تک یہ جنگ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور پھر تباہی کہ سوا کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ پاکستان پر بھی اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان کے سعودی عرب، ایران اور امریکا سے تعلقات بہتر اور مثالی ہیں۔ جنگ کی صورت میں پاکستان ایک بڑی آزمائش میں آجائے گا۔ کوالالمپورکانفرس میں حکمرانوں کی قوت مدافعت کا عوام اچھی طرح مظاہرہ دیکھ چکے ہیں اور پاکستان اس دفعہ کسی بھی صورت میں اس جنگ سے لاتعلق نہیں رہے سکے گا۔ امریکا نے اپنے شہریوں کو سختی کے ساتھ پاکستان اور ایران کی سرحد کے ساتھ سفر پر احتیاط سے کام لینے کی تاکید کی ہے۔ ایران اب یمن، لیبیا، عراق، شام میں امریکی مفادات پر حملہ آور ہوگا۔ پاکستان میں سنی اور شیعہ دونوں مکاتب فکر کے لوگ آباد ہیں اور پاکستان اس چیلنج کو برداشت نہیں کر سکے گا۔ امریکا نے پاکستان کو ایک نئی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ اصولاً تو پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان حالات میں اسلامی ملک ایران کا ساتھ دے لیکن سعودی عرب کی ناراضی برداشت کرنے کی وہ پوزیشن میں نہیں ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادی حملہ آور ہوئے تھے تو انہوں نے پاکستان کی حدود میں اپنے اڈے اور بیس کیمپ قائم کیے تھے اور اتحادی فوجیں ان اڈوں جیکب آباد ائر بیس ودیگر ائر بیس کو استعمال کرتی تھی۔ اب جب کہ ایران کے ساتھ امریکا کا تنازع خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے اس جنگ سے لاتعلق رہے۔
جوں جوں امریکا کے صدارتی انتخاب قریب آرہے ہیں ٹرمپ کا مسلمان ملکوں پر غصہ بڑھتا جائے گا۔ امریکا اسرائیل گٹھ جوڑ کا ایجنڈا صرف مسلم دشمنی ہی ہے۔ عراق سے دس سالہ جنگ کے بعد بھی ایران اپنی تباہ حال معیشت اور پابندیوں کے باوجود میدان میں موجود ہے اور وہ امریکا کو لکار رہا ہے۔ دوسری جانب ایران، عراق، لیبیا، شام سمیت دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے اور امریکا مخالف نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ ایران امریکا جنگ میں پاکستان کو چاہیے کہ وہ تدبر و تحمل کا مظاہرہ کرے اور پرویز مشرف کی طرح خود کو امریکا کے ہاتھوں فروخت نہ کرے اور مسلم دنیا کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اتحاد ویکجہتی کا مظاہرہ کرے۔ امریکا کی ریاستی دہشت گردی پوری دنیا کے امن کو تباہ کرنے کی سازش ہے اور اس سے پورے خطے میں آگ لگ جائے گی۔