زرعی ملک اب کپاس درآمد کرے گا

475

زرعی ملک پاکستان کے حکمرانوں کی جانب سے اس ملک کی زراعت کے ساتھ مذاق کے نتیجے میں پاکستان اس سال کپاس درآمد کرنے پرمجبور ہو گیا ہے ۔ کپاس کے سبب پاکستان ٹیکسٹائل کی صنعت کو ترقی دے سکتا تھا ۔ اب درآمد شدہ کپاس کے نتیجے میں پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات پر بھی برا اثر پڑے گا ۔ کپاس کی فصل روز بروز خراب کیوں ہو رہی ہے اس سال 50 لاکھ گانٹھوں کی ضرورت کیوں پڑی پاکستانی حکمران اور وزراء کیا کر رہے ہیں ۔ یہ سب کون دیکھے گا ۔ جن ارکان اسمبلی کو یہ سب دیکھنا ہے وہ تو اینکروں سے اپنی عزت کروانے کے لیے ایوان میں کمیٹیاں بنوا رہے ہیں ۔ لیکن زرعی ملک جب کپاس درآمد کرے گا تو یہ بھی اس ملک کی بے عزتی ہے ۔ بات صرف کپاس کی نہیں ہے پاکستان میں فصلوں کو پرانے طریقوں کے بجائے اقوام متحدہ کے ساہو کار اداروں کے طریقوں کے مطابق کاشت کیا جانے لگا ہے ۔ بیجوں کی فطری اور قدیم اقسام کے بجائے جی ایم او بیجوں پر زور دیا جار ہا ہے تاکہ کاشتکار ابتدائی طور پر زیادہ فصل حاصل کر سکیں اس کے بعد ان سے منہ مانگے دام وصول کر کے بیج دیے جاتے ہیں پھر بیج کے ساتھ خصوصی کھاد کی شرط بھی آ جاتی ہے ۔ پھر کاشتکار کو مقروض کیا جاتا ہے اور یوں بے مزا فصلوں کے ذریعے پاکستان کے کئی پھل اور سبزیاں جی ایم او کی محتاج بنا دی گئی ہیں ۔ ان میں آلو بخارے ، خوبانی ، سیب ، پپیتا وغیرہ شامل ہیں ۔ کسانوں کی تنظیمیں محض فصل کی قیمت خرید کے چکر میں اُلجھ کر رہ گئی ہیں ۔ اس سازش کی جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ تحریک انصاف میں کچھ ایسے لوگ شامل ہیں جو خود بھی کاشتکار ہیں اور زراعت کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔ ان میں جہانگیر ترین کا نام نمایاں ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسی خوبی کی بنا پر ان سے مشاورت کی جاتی ہے اور نا اہل قرار دیے جانے کے باوجود انہیں کابینہ کے اجلاس میں شامل کیا جاتا ہے ۔ ایک اور وفاقی وزیرمٹر کی کاشت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مٹر5روپے کلو ہے ۔ اس کی تائید مشیر اطلاعات بھی کرتی ہیں ۔ کپاس کی پیدا وار میں کمی کا اہم سبب یہ ہے کہ اس کا زیر کاشت رقبہ کم ہو رہا ہے اور کاشتکار دوسری فصلوں کو ترجیح دے رہے ہیں ۔