پاکستانی حکمران کشمیریوں سے نظریں نہیں ملا سکتے

455

پانچ جنوری کو آزادو مقبوضہ کشمیر اور پاکستان سمیت ساری دنیا کے کشمیریوں اور حریت کے حامیوں نے یوم حق خود ارادیت منایا ۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ، آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے علاوہ پاکستان میں اور بیرون ملک رہنمائوں نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے حق میں پر زور تقریریں کیں ۔ حریت رہنمائوں نے اپنے خطاب میں مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ اپنی قرار دادوں پر عمل درآمد کرائے ۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت پر دبائو ڈالیں ۔اس موقع پر وزیر اعظم آزاد کشمیر نے استصواب رائے کے حوالے سے علامتی طور پر اپنا ووٹ پاکستان کے حق میں دے دیا ۔ صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان نے دلچسپ بات کی ہے کہ قلم ، کمپیوٹر اور کیمرے کی طاقت کو کشمیریوں کے لیے استعمال کیا جائے ۔ صدر مملکت نے جو بات کی ہے وہ بھی سونے پر سہاگہ ہے کہ عالمی برادری کشمیریوں سے نظریں نہیں چرا سکتی ۔ چونکہ وزیر اعظم عمران خان محتاط ہیں کہ ان پر یوٹرن کا الزام نہ لگ جائے اس لیے اسی پر اکتفا کیا ہے کہ حمایت جاری رہے گی ۔ لیکن سب سے اہم چیز یہ ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ ہمارا رویہ کیا ہے بلکہ اسے یوں کہنا چاہیے کہ پاکستان کے ساتھ ہمارا رویہ کیا ہے کیونکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے پاکستان سے الگ نہیں ۔ ہم اپنی شہ رگ کے ساتھ جو سلوک کر رہے ہیں اور جس انداز میں مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں اور کشمیریوں کو بھارت کے عقوبت خانے میں دھکیل رہے ہیں اس سے زیادہ سفاکی کسی ملک کی جانب سے اپنے لوگوں کے خلاف ممکن نہیں ۔ حریت رہنما تو مطالبہ کر سکتے ہیں انہوں نے اقوام متحدہ کو اس کی ذمے داری یاد دلائی ہے کہ کشمیر کے حوالے سے وہ اپنی قرار دادوں پر عمل کروائے ۔ لیکن جو لوگ حکمران ہیں صدر اور وزیر اعظم ہیں وہ کیا کر رہے ہیں ۔ اگر وہ بھی محض دن منانے اور مطالبات کرنے تک محدود رہیں تو کیا فرق پڑتا ہے ۔ صدر آزاد کشمیر کی بات کہ قلم کمپیوٹر اور کیمرے کی طاقت کو کشمیریوں کے لیے استعمال کیا جائے بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ دلچسپ یوں ہے کہ جن تین چیزوں کا انہوں نے ذکر کیا ہے یہ تینوں مل کر جدید جنگ کے ہتھیار بنتے ہیں اور انہیں میڈیا کہا جاتا ہے ۔ اس کو پاک فوج کے ترجمان ففتھ جنریشن وار بھی کہتے ہیں ۔ اب دیکھیں کہ پاکستان میں قلم ، کمپیوٹر اور کیمرے کیا کام کر رہے ہیں؟؟ قلم حکومت اور بڑی سرکار کی حمایت میں استعمال ہو رہا ہے ۔ جس قلم سے حکومت کی پالیسیوں کی حمایت لکھی جائے اس کی پذیرائی ہوتی ہے ۔ جس کمپیوٹر سے سرکار کے موقف کی تائید پر مشتمل مواد آگے بڑھایا جائے اس کو رفعت ملتی ہے اور جس کیمرے میں صدر پاکستان ، وزیر اعظم ، وزیر اعظم کی مشیر اطلاعات ، وزیر خارجہ اور فواد چودھری ، شہریار آفریدی وغیرہ ہوں اور وزیر اعظم کے دیگر مشیران خاص ہوں وہ کیمرہ با برکت ہوتا ہے اس کے پیچھے جو لوگ جو ادارے ہوتے ہیں ان کو نوازا جاتا ہے ۔ لیکن جس کمپیوٹر یا موبائل پر برہان مظفر وانی کی ڈی پی لگا دی جائے اس کمپیوٹر والے کی فیس بک بند کر دی جاتی ہے ۔ پاکستانی چابکدست ایجنسیاں ایسے لوگوں کو دہشت گردوں کا ہمنوا یا سہولت کار قرار دینے میں جت جاتی ہیں ۔ اسی طرح جس کیمرے سے حکمرانوں کی بے ہودگیوں کی ویڈیوز بنائی جائیں اس کیمرے کو تو بند کرا دیا جاتا ہے ۔ اور باقی رہا قلم تو اسے جس قدر بے توقیر حکمران کرتے ہیں اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جن کے ہاتھوں میں قلم ہیں ۔ جو قلم کشمیریوں کے لیے لکھتا ہے اس کی تحریر کو گم کر دیا جاتا ہے ۔ آزادی اظہار کے نام پر بے ہودگی اور آزاد خیالی کو فروغ دینے کے لیے کوئی بھی اپنے قلم کو کسی بھی طرح استعمال کر لیتا ہے ۔ بھارت ان ہی تینوں ہتھیاروں کو نہایت خوبصورتی سے استعمال کر رہا ہے ۔ اس کے کیمرے ، ٹی وی کارٹون بناتے ہیں اور چھوٹا بھیم ہمارے بچوں کے ذہنوں پر سوار ہو جاتا ہے ۔ بچوں کا آئیڈیل چھوٹا بھیم پھر مختلف کھلونوں کی شکل میں پنسل کے سر پر ربر اور شارپنر کی شکل میں بھارت سے پاکستان آتا ہے اور یوں ہر بچے کے بیگ میں ہندو دیوتا بھیم موجود ہوتا ہے ۔ جس قلم کی بات کی گئی ہے اسے بھارتی قلمکار استعمال کرتے ہیں ان کا میڈیا اسے اچھالتا ہے اور اتنا اچھالتا ہے کہ ہمارے اپنے میڈیا پر کشمیری مجاہدین کو دہشت گرد کہا جانے لگتا ہے ۔ اور بھارتی میڈیا اپنے کیمرے کو بھی نہایت چالاکی سے استعمال کر رہا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں اور طاقت کے ترجمانوں کا مطالبہ ہے کہ ہماری تعریفیں کرو ۔ ایسے میں صدر پاکستان عارف علوی صاحب کا یہ کہنا کہ عالمی برادری کشمیریوں سے نظریں نہیں چرا سکتی ایک مذاق لگتا ہے ۔ صدر مملکت یہ بتا سکتے ہیں کہ کیا پاکستانی حکمران کشمیریوں سے نظریں ملا سکتے ہیں ۔ عالمی برادری جتنی ڈھیٹ ہے وہ تو کشمیریوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں دہشت گرد قرار دیتی ہے لیکن پاکستانی حکمرانوں میں ڈھٹائی کے باوجود ابھی اتنی جرأت نہیں کہ کشمیریوں سے نظریں ملا سکیں ۔ وہ تو اپنے عوام سے بھی نظریں نہیں ملا سکتے جن سے خوشنما وعدے کیے گئے تھے مدینہ کی ریاست بنانے کے دعوے کیے گئے تھے ترقی و خوشحالی کے خواب دکھاتے تھے لیکن ہر چیز کو آگ لگ گئی ہے ۔ اگر صحیح معنوں میں احتساب ہو اور آزادی سے الیکشن ہو تو ان میں سے کوئی دوبارہ انتخابی میدان میں اُترنے کی ہمت نہ کرے ۔ یہ لوگ کشمیر کیا آزاد کرائیں گے ۔