پی ٹی آئی کے مخالفین بلاوجہ اس کے ہر فیصلے کے خلاف شور مچانے لگتے ہیں اب خوامخواہ ہی کے پی کے کو نشانہ بنالیا ہے۔ اکبر ایوب صاحب کو مواصلات کی وزارت سے ہٹا کر وسیع تجربے کی بنیاد پر تعلیم کا وزیر بنادیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نیازی پنجاب اور کے پی کے پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں اس لیے پختونخوا کابینہ کے وزرا کی تعداد 30 کردی ہے ان کی کوشش ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ اکبر ایوب خان کے بارے میں صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے بھی یہی خیال ظاہر کیا ہے کہ تعلیم سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اکبر ایوب کو بہت وسیع تجربہ حاصل ہے۔ ان کے علاوہ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے اقبال وزیر بھی میٹرک پاس ہیں یہاں بھی دلیل وہی اور بہت خوب ہے کہ وسیع تجربہ ہے۔ ان کا نام بھی وزیر ہے۔ اکبر ایوب جب مواصلات کی وزارت چلا سکتے ہیں تو تعلیم کی کیوں نہیں چلا سکتے۔ اب پی ٹی آئی کے مخالفین کو تو صرف تنقید کرنی ہے ورنہ اکبر ایوب تو پہلے بھی وزیر تھے اور میٹرک پاس ہی تھے۔ معاملہ میٹرک پاس یا فیل ہونے کا نہیں ہے۔ سندھ کے ایک وزیر تھے در محمد اوستو… ان کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ صرف چھٹی جماعت پاس تھے اور کئی وزارتوں پر فائز رہے۔ بڑی کامیابی سے وزارت چلاتے رہے۔ ایک غلام دستگیر خان تھے ان کے بارے میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ وہ بھی پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن ان کے دستگیروں نے انہیں وزیر بنادیا، ان کے پاس فائلوں کا انبار لگنے لگا لوگ پوچھتے کہ ہمارے کام کا کیا بنا تو سیکرٹری بتادیتا کہ صاحب کے پاس فائل ہے چند روز میں شکایت اوپر تک پہنچ گئی۔ وزیر صاحب سے بازپرس ہوئی تو انہوں نے فوراً میٹنگ بلالی۔ سیکرٹری سے پوچھا کیا کروں تو اس نے حل نکالا کہ آپ فائل پر SEEN لکھ دیا کریں باقی ہم دیکھ لیں گے۔ چناں چہ اس دن کے بعد سے انہوں نے ہر فائل پر اردو کا ’’س‘‘ لکھنا شروع کردیا۔ ان کی تعلیم اتنی ہی تھی۔ اور شوکت یوسفزئی صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ غلام دستگیر خان نے بڑی کامیابی سے میٹرک پاس کیے بغیر اور در محمد اوستو نے بھی میٹرک پاس کیے بغیر وزارت چلائی تھی۔
پتا نہیں پی ٹی آئی کے دشمنوں کو یہ خیال کیوں آگیا کہ وزارت چلانے کے لیے میٹرک سے زیادہ پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔ اب دیکھیں بھارت میں لالو پرساد یادو اور رابڑی دیوی نے کون سا میٹرک کیا تھا۔ دونوں نے وزیراعلیٰ بن کر بڑی اچھی طرح حکومت چلائی۔ ثابت ہوا کہ وزیر یا وزیر اعلیٰ بننے کے لیے میٹرک یا اس سے زیادہ تعلیم لازمی نہیں ہے۔ بس تھوڑی سی خرابی یہ ہے کہ میٹرک پاس وزیر تعلیم کی سوچ بھی اتنی ہی ہوگی جتنی ہمارے ایک دوست کے بقول ڈیرہ غازی خان کے ان بابے کی تھی جو این ای ڈی میں اپنے بیٹے سے ملنے آئے تھے۔ تمام طالبعلم اپنے ساتھی کے والد محترم کے استقبال کے لیے جمع ہوئے، ان کے اعزاز میں بہت اچھے کھانے کا انتظام کیا اور پھر جب محفل برخاست ہونے لگی تو حسب روایت ایک نوجوان نے درخواست کی کہ بابا جی کوئی نصیحت بھی فرما دیں۔ بابا جی نے تھوڑا وقفہ لیا۔ چائے کا لمبا سا گھونٹ سڑاپ کرکے لیا اور کپ رکھتے ہوئے کہنے لگے بیٹا تم سب انجینئرنگ پڑھ رہے ہو بھائی کچھ بھی پڑھ لو، ڈاکٹر بنو، انجینئر بنو لیکن ایک بات یاد رکھنا یہ بچہ پورے گائوں کا پہلا میٹرک پاس بچہ ہے تو کچھ بھی پڑھو میٹرک ضرور کرنا۔ اس بچے کی پورے گائوں میں اتنی عزت ہے جتنی کسی ڈاکٹر، انجینئر کی نہیں ہوتی۔ اندازہ کریں میٹرک کی کس قدر اہمیت ہے۔ یقینا وہ باباجی اپنے وقت کے شوکت یوسفزئی ہوں گے کہ سب کو میٹرک کی فضیلت سے آگاہ کررہے تھے۔ دراصل ہمارے لوگوں کو میٹرک پاس وزیر کی قدر نہیں۔ این ای ڈی میں آنے والے بزرگ سے پوچھیں جن کے گائوں کا سب سے پہلا میٹرک پاس ان کا بیٹا تھا۔ اس لیے انہوں نے سب انجینئرز پر زور دیا کہ میٹرک ضرور کرنا۔ خیال ہے کہ اکبر ایوب خان صاحب جلد ہی تعلیمی اصلاح کا بل اسمبلی میں لائیں گے اور یہ لازمی قرار دیا جائے گا کہ آئندہ کسی بھی رکن اسمبلی کو اس وقت تک وزیر نہیں بنایا جائے گا جب تک وہ میٹرک نہ کرلے۔ اس سے ایک تو یہ ہوگا کہ ہر گائوں میں کوئی نہ کوئی میٹرک کررہا ہوگا اور یوں ملک میں میٹرک سسٹم نافذ ہوجائے گا۔ میٹرک پاس وزیر کے ہاتھوں نظام تعلیم کی تباہی کا پروپیگنڈا بالکل نہ سنا جائے کیوں کہ نظام تعلیم کو گزشتہ 70 برس میں پی ایچ ڈی اور اس سطح کے دوسرے درآمد شدہ ماہرین نے پہلے ہی تباہ کردیا ہے۔ میٹرک پاس وزیر بے چارہ کیا بگاڑے گا (مزید) لے دے کر چند ایک شریف میٹرک پاس رہ گئے ہیں ان کو تو ہمت افزائی کی ضرورت ہے۔ دیکھیں پڑھے لکھے وزرا کا حال کوئی تھپڑائو کردیتا ہے، کوئی ناچ رہا ہوتا ہے، کسی کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں۔ اس سے قبل نعیم الحق صاحب ٹی وی پروگرام کے دوران گالیاں دے چکے ہیں۔ فواد چودھری تو سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر ہیں انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کی بھی کوئی عزت ہے جسے وہ بزور طاقت ثابت کریں گے۔ یہ سب میٹرک سے بہت زیادہ پڑھے لکھے ہیں ان کی وزارت بھی تو چل رہی ہے لیکن ان کے بارے میں یہ کون بتا سکتا ہے کہ میٹرک کرنے یا زیادہ پڑھنے کا اخلاق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فیصل واوڈا، شہریار آفریدی، علی امین گنڈا پور، مراد سعید، فیاض الحسن چوہان وغیرہ جب بولتے ہیں تو لوگ یہی پوچھتے ہیں کہ کیا انہوں نے میٹرک کرلیا ہے۔ کم از کم اکبر ایوب خان میٹرک پاس تو ہیں ناں۔