تہران مذاکرات: ہرمز امن پلان کا آغاز

269

احمد محمدی
قونصل جنرل اسلامی جمہوریہ ایران۔ کراچی
روزانہ قریب ۱۵۰ میلیون بیرل تیل کاگزر اور خطے اور خطے سے باہر کے ممالک کے درمیان بڑی مقدار میں تجارتی اشیاء کا لین دین تنگہ ہرمز کی بین الاقوامی تجارت و انرجی میں اسٹرٹیجک اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ لہٰذا اس تنگہ کا امن و استحکام بین الاقوامی بازاروں تک رسائی کی لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے جسے ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس علاقے کے موجودہ بحرانوں و دوسرے کئی مسائل مثلاً یمن اور عراق کے مسائل کی موجودگی اور ساتھ ساتھ اس موجودہ غلط نظریے کے پیش نظر کہ ان بحرانوں اور مسائل کا خاتمہ کسی ایک خاص ملک کے حق میں تشدد اور طاقت کا استعمال کرکے اور اس ملک کو علاقے میں فاتح بنا کر ممکن ہے، ہمیں اس بات پر قائل کرتا ہے کہ اس حساس علاقے کو اپنے پائیدار امن و استحکام کے لیے بڑی مقدار میں اسلحہ خریدنے اور غیر ملکی طاقتوںکے ساتھ دفاعی سمجھوتوں سے کہیں بڑھ کر باہمی مذاکرات کی ضرورت ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اس بات پریقین رکھتا ہے کہ اس بحران زدہ علاقے کے پائیدار استحکام کا انحصار علاقائی ممالک کا باہمی اعتماد، ملکی طاقت اور اچھی ہمسائیگی کی مضبوطی پر ہے۔ ایران کا یقین یہ ہے کہ ایک مضبوط ملک کے بجائے ایک مضبوط علاقے کا قیام علاقائی تنازعات کا تنہا حل ہے، کیونکہ برسوں سے جاری طاقت اور تشدد سے آج تک نہ تو کوئی مسئلہ حل ہوا ہے بلکہ الٹا آئے دن ایک نیا مسئلہ علاقے میں کھڑا ہوجاتا ہے۔ موجودہ حالات کی اصل وجہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے علاقے میں مختلف موضوعات پر جامع علاقائی مذاکرات کا فقدان ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ ایک دوسرے کے بارے میں مذاکرات کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ قائم ہونا چاہیے تاکہ ہم علاقائی مشارکت کے ذریعے ایک پائیدار اور جامع امن و ترقی کے لیے راہ ہموار کرسکیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران جو مذاکرات کی ہمیشہ حمایت کرتا آرہا ہے کو اس بات کا یقین ہے کہ سخت الفاظ اور تہمت کے تبادلوں کے بجائے علاقائی مذاکرات کا سلسلہ قائم ہونا چاہیے۔ یہ وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم موجودہ خطرات کا مقابلہ اور تنازعات کو ختم کرسکتے ہیں اور باہمی اعتماد قائم کرسکتے ہیں۔ موجودہ خطرات کی پوری سمجھ کے ساتھ موجودہ تناؤ اور بدامنی کو کم اور بڑھتے ہوئے بحرانوں کو جو ایک غیرقابل بیان سانحے کا سبب بن سکتا ہے، کنٹرول کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران نے تین پیشکش کا اعلان کیا ہے: ہرمز امن پلان، علاقائی مذاکرات اور عدم تجاوز سمجھوتا، جس کا مقصد عسکری اور امن و امان پر مبنی اتحادوں کے بجائے علاقائی ممالک کے درمیان تجارتی، معاشی اور ثقافتی نظریوں پر مبنی اتحادوں کے قیام کے آغاز کے لیے راہ ہموار کرنا ہے، کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ اس علاقے کے اقوام و عوام کا مستقبل ایک دوسرے سے جڑا ہے، علاقائی امن کا بٹوارہ نہیں ہوسکتا ہے اور امن یا بدامنی کا اثر پورے خطے پر پڑتا ہے۔ اسی خیال کے پیش نظر، اسلامی جمہوریہ ایران نے علاقائی ممالک کو ہرمز امن پلان (HOPE) کی پیشکش کی ہے جس کو آگے بڑھانے کے لیے پوری حمایت و تعاون در کار ہے۔ HOPE جن اصولوں کی بنیاد پر بنایا گیا ہے ان میں شامل ہیں: اقوام متحدہ کے اصول و مقاصد کی پابندی، اچھی ہمسائیگی پرمبنی تعلقات، آزادی و ملکی سالمیت کا احترام، بین الاقوامی سرحدوں کی تبدیل ناپزیری، تمام تنازعات کا پر امن حل، زور و طاقت کے استعمال کی مخالفت، ایک دوسرے کے خلاف قائم اتحاد یا پیمان میں عدم شراکت، ایک دوسرے کے داخلی معاملات اور خارجہ پالیسی میں عدم مداخلت، باہمی احترام، باہمی مفاد، برابری، ایک دوسرے کی مقدسات اور قومی، مذہبی اور تاریخی مقامات کا احترام۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے HOPE کے تمام پہلوؤں کو نمایاں طور پر اجاگر کرنے اور اس کی کامیابی کے لیے ضروری نکات پر بات چیت کے لیے 6-7جنوری کو تہران مذاکرات کا اہتمام کیا ہے اور اسے امید ہے کہ علاقائی ممالک کے درمیان اس گہری دوستانہ بات چیت سے HOPE کے مقاصد کو جن میں امن کا قیام، استحکام، ترقی، علاقے کے تمام ممالک اور اقوام کا رفاہ، باہمی تفاہم اور پرامن و دوستانہ تعلقات کا فروغ، دہشت گردی اور انتہا پسندی کا جڑ سے خاتمہ، تنازعات کا مذاکرات کے ذریعے پرامن حل، انرجی کی سیکورٹی اور علاقائی ممالک کے درمیان جہاز رانی اور تیل اور دوسرے ذرائع کی آزادانہ آمد و رفت شامل ہے حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ جیسا کہ میرے ملک کے لیڈروں کی طرف سے بار بار اور جس طرح وزیر اعظم عمران خان کے دورہ تہران کے دوران بھی زور دیا گیا ہے، اسلامی جمہوری ایران کو بات چیت، تعاون، مشارکت اور علاقائی ممالک کے رول پر کسی قسم کا کوئی تحفظ نہیں ہے اور ہمارا ملک علاقائی ممالک میں سے کسی ایک کو بھی علاقائی توازن سے ہٹانے کا ہرگز خواہش مند نہیں ہے اور یہ اس علاقے میں امن واستحکام کے لیے دوست اور برادر ملک پاکستان اور دوسرے تمام ممالک کی کوششوں کا خیرمقدم کرتا ہے۔ آخر میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جیسا کہ ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر ظریف کی طرف سے جس بات پر بار بار زور دیا گیا ہے، جامعاتی اور ڈپلومٹیک انجمنوں، تھنک ٹینکوں، مطالعاتی اداروں اور دور اندیشوں کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں اور اس پلان کو پروان چڑھانے کے لیے جس کا مقصد تمام علاقائی ممالک کی امن و سلامتی و ترقی ہے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعاون فرمائیں۔