نیا سال خدشات وتوقعات

249

2019 کا سال اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ یہ سال جنوبی ایشیا کے حوالے سے کسی مثبت تبدیلی کے بجائے روح فرسا یادوں کو دامن میں لپیٹے رخصت ہوا۔ یہ سال بھی اپنے پیچھے اس خطے کے عوام کے لیے غربت، افلاس، بے روزگاری، سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ جنگ کے خطرات اور منڈلاتے ہوئے سائے چھوڑ کر چلا گیا۔ پاکستان بھارت اور کشمیر کے حوالے سے یہ سال اپنے جلو میں تباہ کن واقعات لے کر آیا تھا۔ بھارت کی طرف سے بالاکوٹ آپریشن اور پاکستان کے جواب نے ابھی نندن جیسے کردار کو جنم دیا۔ ابھی نندن کا وجود بھارت کی کسی بھی جارحیت کے جواب میں پاکستان کے ردعمل کی علامت اور یاد بن کر رہ گیا۔ یہ کشیدگی ابھی برقرار ہی تھی کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی شناخت پر حملہ کر دیا۔ بھارتی آئین میں کشمیر کو خصوصی شناخت دینے والی دفعات کو ختم کرکے کشمیر کا آئین اور الگ شناخت ختم کر دی۔ بھارت نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ کشمیریوں کو ممکنہ ردعمل سے روکنے کے لیے پوری وادی کو ایک قید خانے اور تعذیب کدے کی شکل دے دی۔ فوج کی قوت کو بڑھا دیا گیا اور پوری ریاست میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ انٹرنیٹ، موبائل، ٹیلی ویژن بند کر کے کشمیری عوام کو اطلاع اور ابلاغ کے اس جدید دور میں پتھر کے دور میں پہنچا دیا گیا۔ خاندانوں کو کاٹ دیا گیا۔ بیرونی دنیا سے کاٹ کر کشمیریوں کو محصو ر کردیا گیا۔ مساجد پر تالے چڑھادیے گئے۔ کشمیر کی مذہبی شناخت کی علامت جامع مسجد سری نگر میں عبادت پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کرکے جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند کردیا گیا۔ دنیا میں انسانوں کی اتنی بڑی تعداد کو محصور کرنے کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ کشمیری عوام نے بھارت کی اس پالیسی کے جواب میں عدم تعاون اور سول نافرمانی کا رویہ اپنالیا۔ کشمیریوں کی اس حالت ِ زار اور مظالم کی گونج عالمی سطح پر سنائی دی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان نے ایک معرکۃ
الآرا خطاب میں کشمیر کا مقدمہ زوردار انداز میں پیش کیا۔ سلامتی کونسل کے ارکان نے بھی بند کمرہ اجلاس میں کشمیر کی صورت حال پر بات چیت کی مگر اس کا اثر مجموعی صورت حال پر نہ پڑ سکا۔ بین الاقوامی دبائو کے تحت کشمیر میں پابندیوں میں کچھ نرمی تو آئی مگر کشمیر کی شناخت پر بھارت کا مذموم حملہ واپس نہ لیا جا سکا۔ کشمیر سے شروع ہونے والا رقص ِ ابلیس آخر کار پورے بھارت تک وسیع ہوگیا۔ کشمیر کی الگ حیثیت شناخت اور تہذیب وثقافت پر حملے کے بعد بھارت نے یہی کلیہ پورے بھارت پر لاگو کرنے کا راستہ اپنایا۔
کنٹرول لائن پر پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رہا جس کے نتیجے میں معصوم اور بے گناہ انسانی جانیں اس فائرنگ کا شکار ہوتی رہیں۔ اس طرح 2019 خطے کے سیاسی واقعات کے لحاظ سے ناقابل فراموش رہے گا۔ اس سال پیش آنے والے واقعات اب تاریخ کا حصہ بن کر صدیوں کے لیے محفوظ ہو گئے۔ ان فیصلوں کے اثرات کیا ہوں گے؟ اس کا جواب رفتہ رفتہ ملتا چلا جائے گا۔ سال نو کرۂ ارض کے لیے بالعموم اور پاکستان بھارت اور کشمیر کے لیے کیسا ثابت ہوگا؟ یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے۔ 2019اس خطے کے لیے فتنہ وفساد او جنگ وجدل سے بھرپور رہا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات پہلے ہی کشیدہ تھے مگر گزشتہ برس یہ تعلقات شدید بگاڑ کا شکار ہو گئے۔ تعلقات پر مصنوعی ملمع کاری پانچ اگست کے بعد دھل کر رہ گئی اور یوں دونوں ملکوں میں کشیدگی کے زیادہ خوفناک دور کا آغاز ہوگیا۔ پانچ اگست کو بھارت نے کشمیر کا خصوصی اسٹیٹس ختم کرنے کے ساتھ ہی اس تاریخی اور قدیم ریاست کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک حصہ وادی کشمیر اور جموں قرارپایا جبکہ دوسراحصہ لداخ بنا۔ دونوں حصوں کو براہ راست بھارتی یونین کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی بھارت نے کشمیر کو ایک قید خانے کی سی شکل دیدی۔ پانچ اگست سے اکتیس دسمبر تک حالات میں کوئی جوہری تبدیلی نہ آسکی۔ اس طرح سال 2020 کا آغاز ورثے میں چلی آنے والی کشیدگی اور مخاصمت کے ساتھ ہورہا ہے۔ نریندر مودی کا خوں خوار سراپا ابھی اپنی روش ترک کرنے کو تیار نہیں۔ مودی مسلمان دشمنی کے جس ذہنی مرض کا شکار ہے اس میں کمی یا افاقہ ہونے کے آثار نہیں۔ بیرونی طاقتیں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو ایک حد کے اندر رکھنا چاہتی ہیں مگر وہ اس کے لیے کوئی عملی قدم اُٹھانے سے گریزاںہیں۔ امریکا اور چین سمیت تمام اہم ممالک کی خواہش ہے کہ جنوبی ایشیا کے دو روایتی حریفوں کے درمیان باقاعدہ جنگ نہ ہو مگر وہ بھارت کو کشمیر میں غیر انسانی اقدامات سے روکنے کے لیے عملی طور پر کوئی قدم نہیں اُٹھا رہے۔ دوسری طرف مودی کا کشمیر دشمنی کا عارضہ اب مسلمان دشمنی میں ڈھل کر بھارتی مسلمانوں تک دراز ہو گیا ہے۔ مودی کے رویے میں تبدیلی کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان محدود جنگ جاری ہے لیکن کھیل ہی کھیل میں یہ محدود جنگ اور جھڑپیں کسی بڑی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے نیا سال خدشات سے بھرپور ہے۔ حالات کا جائزہ لیں تو توقعات کی اسپیس نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان کو اس سال جہاں محتاط طریقے سے آگے بڑھنا ہے وہیں کشمیریوں کی توقعات پربھی پورا اترنے کی کوشش کرنا ہے۔
پاکستان معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ امریکا اور بھارت نے اس کے سر پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار بھی لٹکا رکھی ہے۔ آئی ایم ایف نے اس کی معاشی شہ رگ پر گرفت قائم کی ہے۔ یہ تمام
مشکلات اسے کشمیر کے حوالے سے کوئی عملی قدم اُٹھانے سے روکے ہوئے ہیں مگر کشمیر کے لوگ بھی پاکستان سے ایک زور دار ردعمل کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ توقع پوری نہ ہوئی تو کشمیر میں پاکستان کے حوالے سے مایوسی میں اضافہ ہوگا۔ سال نو میں جہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر ایک جنگ کا امکان موجود ہے وہیں یہ موہوم امید بھی قائم ہے کہ عالمی سطح پر بننے والا دبائو بھارت کو فسطائیت کے راستے سے ہٹنے پر بھی مجبور کر سکتا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے اس سال کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ اس وقت پاکستان شدید سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ پکڑ دھکڑ، تند وتیز جملے، سیاسی مہم جوئی، کریک ڈائون، حکومت گرانے کی دھمکیاں اور معاشی مشکلات عدم استحکام کو بڑھا رہی ہیں۔ اس سال حکومت اپوزیشن کے چیلنجز کو چھوڑ کو معاشی چیلنج سے نمٹ کر اپنے ڈگمگاتے ہوئے قدموں کو مضبوط کر سکتی ہے۔ نیب آرڈیننس میں ترمیم حکومتی رویے میں لچک اور تبدیلی کا پتا دے رہی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت بھی حکومت اب سنجیدگی کے ساتھ معاشی مشکلات کا خاتمہ چاہتی ہے۔ یہ تاثر درست ہے تو 2020 کے سال پاکستان کا سیاسی عدم استحکام نہ صرف کم ہو سکتا ہے بلکہ اس کی معیشت بھی استحکام کی طرف سفر طے کر سکتی ہے۔ ایک بار پاکستان معاشی بدحالی کی موجودہ دلدل سے باہر آگیا تو پھر ترقی کے سفر میں کوئی چیز اور طاقت رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ ہمارے ہمسائے میں بھارت کی معاشی طاقت کا جادو اور جمہوریت اور سیکولرازم کا مصنوعی میک اپ دھل جانے سے پاکستان کے لیے اچھے مواقع اور امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ جن سے فائدہ اُٹھانا حکومت کا امتحان ہے۔ 2020 پاکستان کے اگلے سیاسی اور معاشی سفر اور کامیابیوں کا تعین کرنے میں فیصلہ کن کردار کا حامل ہے۔ پاکستان کے ارباب بست وکشاد اور حکمران طبقات کو گردوپیش کے حالات واقعات کو امکانات میں بدلنے کی منصوبہ بندی کرکے اس سال کو پاکستان کی تاریخ کا ایک منفرد سال بنانا ہوگا۔