حکومت سندھ کی اندھیر نگری

532

حکومت سندھ کراچی کے اداروں کے ساتھ جو کچھ کررہی ہے وہ کسی طور پر تعصب اور قوم پرستی سے کم نہیں ہے۔ ویسے تو صوبے بھر میں لاقانونیت اور کرپشن کا راج ہے لیکن کراچی کی ترقی کے نام پر اندرون سندھ سے جیالوں کو کراچی کے اداروں میں کھپانا سراسر ناانصافی اور کراچی سرکاری ملازمین کے ساتھ کھلی زیادتی ہے۔ کیونکہ ایک طرف تو صوبائی حکومت کراچی کے مقامی افراد کو ان اداروں میں بھرتیاں کرنے سے مسلسل گریز کررہی ہے تو دوسری طرف مالی مسائل کا شکار ان اداروں میں کراچی سے باہر کے سرکاری ملازمین کو کراچی کے اداروں میں کھپانے میں مصروف ہے۔ یہ عمل غیر سندھی نوجوانوں کو ان ملازمتوں سے محروم رکھنے کی سازش ہے یا انہیں یہاں کے سرکاری اداروں سے دور کھنے کے لیے سرکاری اقدامات کے مترادف ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے صوبے کے تمام سرکاری و نیم سرکاری محکموں اور اداروں میں ’’مہاجر نہ کھپے‘‘ کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے پر عمل شروع کردیا ہے۔
چند روز قبل کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو اینڈ ایس بی) کے اجلاس میں صوبائی وزیر بلدیات نے رورل ایریا سرکل (آر اے سی) بحال کرکے اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے 640 افراد کو واٹر بورڈ میں ’’ایڈجسٹ‘‘ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس بات کا اعلان سکھر سے تعلق رکھنے والے وزیر بلدیات ناصر شاہ نے واٹر بورڈ کے گورننگ باڈی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ خلاف قانون کسی ایک شخص کا بھی تقرر اداروں کا نظام خراب کرنے کے مساوی ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے مسلسل بارہ سال کے دور حکومت میں سرکاری محکموں اور اداروں کی ترقی کے بجائے تنزلی ہورہی ہے۔ یہاں ہر سرکاری ادارے کا افسر اپنے کام کے لیے آنے والے افراد پر گدھ کی طرح حملہ کرتا ہے اور بغیر رشوت کوئی کام نہیں کرتا۔ کراچی کے سرکاری اداروں میں پرانے افسران و دیگر ملازمین کو کنارے لگاکر کراچی سے باہر کے لوگوں کو ملازمتیں فراہم کرنے اور دیگر سرکاری اداروں کے جیالوں کو یہاں ایڈجسٹ کرنے کا تشویش ناک سلسلہ شروع کیا جانا فکر انگیز ہے۔ چند ماہ قبل سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ (ایس ایس ڈبلیو ایم بی) میں 20 افسران اور دیگر کو انتہائی چالاکی سے کھپادیا گیا۔ یہ لوگ سہیون ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایس ڈی اے) کے ملازم تھے اور وہاں بھی مبینہ طور پر سیاسی بنیادوں پر ملازمتیں حاصل کی تھیں۔ ان کی تعلیمی قابلیت اور صلاحیت کسی طور پر بھی ان کی اسامیوں کی شرائط کے مطابق نہیں ہے۔ یہ تمام لوگ وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سندھ سولڈ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ میں چونکہ تنخواہیں، سہولتیں اور ’’اوپر‘‘ کی آمدنی کے زیادہ مواقع ہیں اس لیے یہ لوگ اپنا گائوں چھوڑ کر کراچی میں ایڈجسٹ ہوگئے۔ اب تصور کیجیے کہ جن افسران کو کراچی کی گلیوں ہی سے واقفیت نہیں ہے وہ یہاں کی صفائی ستھرائی کے امور کس طرح انجام دے سکتے ہیں؟
یہی نہیں پیپلز پارٹی کی اس حکومت نے اپنے پہلے دور 2008 تا 2013 کے دوران کراچی بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی کو ’’سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی‘‘ میں تبدیل کرکے کم و بیش 900 ایسے افراد کو بھرتی کردیا جو اسامیوں کی شرائط پر بھی پورے نہیں اترتے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے اداروں میں جیالوں کو ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنے کا یہ سلسلہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ تک پہنچ گیا۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے اس ادارے کے بورڈ میں ترمیم کرکے نیا بورڈ سندھ اسمبلی کی منظوری کے بغیر بنادیا گیا۔ حالانکہ 1996 میں بنایا گیا بورڈ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے تحت تشکیل دیا گیا تھا جس کا تقاضا یہ تھا کہ اس بورڈ میں ترمیم کے لیے بھی اسمبلی سے اجازت لی جاتی۔ واٹر بورڈ کے نئے بورڈ میں کے پی ٹی، ملٹری لینڈ مینجمنٹ، ڈی ایچ اے، پاکستان ریلوے کے نمائندوں کو شامل ہی نہیں کیا گیا۔ جبکہ بورڈ کے اجلاس میں چیئرمین صوبائی وزیر ناصر شاہ نے بورڈ کے لیے اپنا مشیر بھی مقرر کرلیا۔ حالانکہ بورڈ یا اس کے چیئرمین کو کسی بھی شخصیت کو اپنا مشیر بنانے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ صوبائی وزیر نے سلمان چانڈیو کو مشیر مقرر کیا ہے اس ضمن میں آرڈر بھی جاری کردیا گیا۔ سلمان چانڈیو واٹر بورڈ سے ڈی ایم ڈی کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کے بعد مسلسل پینشن بھی لے رہے ہیں اس لیے وہ مشیر بننے کے لیے اہل ہی نہیں ہیں۔ موصوف کے بارے میں بورڈ کے متعدد ذمے دار یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے برتھ سرٹیفکیٹ میں مبینہ طور پر ٹمپرنگ کرکے اپنی عمر میں دو سال کی کمی کروالی تھی اس طرح وہ 60 سال کے بجائے 62 سال کی عمر میں ریٹائر ہوئے اور اس کے بعد بھی مزید 3 سال کے لیے اپنی ملازمت میں توسیع کرائی تھی۔ 71 سالہ سلمان چانڈیو کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ان ہی کے دور میں کراچی میں سیوریج لائنوں کے لیے اربوں روپے خرچ کرکے ناقص ابسٹرکٹ پائپ بچھائے گئے تھے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ رورل ایریا سرکل (آر اے سی) جو حکومت سندھ کا این جی اوز کے تعاون سے بنایا گیا منصوبہ تھا اس کو بحال کیا گیا۔ اس سرکل سے منسلک افراد پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کی رہنمائی میں کام کیا کرتے تھے تاہم یہ رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دیا کرتے تھے لیکن اطلاعات کے مطابق ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انہین جلد ملازمت فراہم کی جائے گی۔ اسی وعدے کی پاسداری کے لیے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں انہیں ملازمت فراہم کرنے کا حتمی فیصلہ کیا گیا۔
640 افراد کو قوانین کے خلاف ملازمتیں فراہم کرنے سے واٹر بورڈ کے سینئر ملازمین کی سینیارٹی اور ترقیاں رکنے کا اندیشہ ہے جس کی وجہ سے پورے بورڈ میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے غیر قانونی اقدامات کا مستقبل کیا ہوگا؟