پانی کی پائپ لائنیں پھٹنے کا سلسلہ

233

کراچی میں اب یہ تماشا معمول بن گیا ہے کہ آئے دن کہیں نہ کہیں پانی کی پائپ لائن پھٹ جاتی ہے اور جس شہر میں پانی کی قلت ہو وہاں جاں بخش پانی کی بڑی مقدارسڑکوں پر ضائع ہو جاتی ہے اور ذمے داران میں سے کسی کو احساس بھی نہیں ہوتا ۔ گلشن اقبال میں سوک سینٹر کے قریب گزشتہ جمعہ کو 24 انچ قطر کی پانی کی پائپ لائن پھٹ گئی تھی جسے تین دن تک تو ٹھیک نہیں کیا جا سکا تھا ۔ اس کے نتیجے میں سڑک زیر آب ہے اور اس کی وجہ سے ٹریفک جام معمول بن گیا ہے ۔ سوک سینٹر کے قریب ہی ادارہ ترقیات ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، ڈی ایم سی شرقی اور سوئی سدرن گیس کمپنی سمیت کئی سرکاری دفاتر موجود ہیں مگر پائپ لائن کو درست نہیں کیا جا سکا ۔ کیا تمام سرکاری ذمے داران آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں ، ان میںسے کسی کا گزر پانی میں ڈوبی ہوئی سڑک سے نہیں ہوتا۔ ادارہ ترقیات کراچی کا کام شہر کو ترقی دینا یا کم از کم ترقیاتی کام کرنا ہے مگر یہ ادارہ بھی شہر کو کھنڈر بنانے میں پیش پیش ہے ۔ پانی کی پائپ لائنوں کی دیکھ بھال اور درستی کی بنیادی ذمے داری واٹر اینڈ سیوریج بورڈ پر ہے لیکن وہ اپنی نا کارکردگی اور نالائقی بار بار ثابت کر چکا ہے ۔ پانی تین دن سے سڑکوں پر بہہ رہا ہے لیکن شاید واٹر بورڈ کے افسران تک یہ خبر پہنچی ہی نہیں ۔ ویسے بھی اب یہ دستور ہو گیا ہے کہ ٹی وی چینل پر وڈیودیکھ کر ہی پتا چلتا ہے کہ کیا حادثہ ہوا ہے۔ پائپ لائن پھٹنے سے اطراف کے علاقوں میں پانی کی فراہمی بھی معطل ہے ۔ تین دن بعد ایم ڈی واٹر بورڈ اسد اللہ خان کو صورتحال کا علم ہوا چنانچہ انہوں نے انجینئروں کو ہدایت کی ہے کہ جلدی کریں اور پائپ لائن کی مرمت کرا ہی دیں ۔ شاید منگل کو یہ کام ہو چکا ہو ۔ لیکن اس عرصے میں جو نہایت قیمتی پانی ضائع ہوا ہے اس کا ذمے دار کون ہے؟ کیا ایم ڈی واٹربورڈ ہی اس کے ذمے دار نہیں ہیں؟ میئر کراچی تو کسی معاملے کی ذمے داری قبول ہی نہیں کرتے کہ ان کے پاس اختیارات ہی نہیں ہیں ۔ سندھ حکومت نے سب کچھ اپنے قبضے میں لے رکھا ہے مگر وزیر اعلیٰ کی دیگر مصروفیات ہیں ورنہ پہلے دن ہی واٹر بورڈ کو ہوشیار کیا جاتا ۔ لیکن پائپ لائنوں کی روز روز کی توڑ پھوڑ کا کوئی علاج تو ہو گا ۔ پائپ لائنیں فرسودہ اور ناکارہ ہو چکی ہیں تو انہیں بدلا جائے ورنہ پانی ضائع ہوتا رہے گا اور لوگ پیاسے رہیں گے ۔