معیشت مستحکم، عوام بھوکے

384

قوم کو روزانہ خوش خبری سنائی جاتی ہے کہ معیشت مستحکم ہو گئی ۔ روپیہ مستحکم ہو گیا ، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مستحکم ہو گئیں۔ اس استحکام کا مطلب کیا ہوتا ہے یہ تو دعوے کرنے اورخوش خبری سنانے والے ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر کچھ روز بعد کوئی نہ کوئی ادارہ ساری خوش خبریوں اور سرکاری دعوئوں پر پانی پھیر دیتا ہے ۔ ایک ہفتے سے حکمراں کہہ رہے تھے کہ2020ء استحکام کا سال ہوگا ۔ معیشت ترقی کی راہ پر چل رہی ہے ۔ اور وہی روپیہ اور قیمتیں مستحکم ہو گئی ہیں کی رٹ۔تاہم اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پہلی سہ ماہی کے دوران فصلوں کی پیدا وار کم رہی ہے جس سے قومی پیدا وار میں کمی کا خدشہ ہے اس عرصے میں مہنگائی ساڑھے گیارہ فیصد بڑھی ہے جو گزشتہ سات برس کی بلند ترین سطح ہے ۔ پیدا وار میں کمی کے سبب خام قومی پیدا وار کی4فیصد نمو کا ہدف بھی حاصل نہیں ہو سکے گا ۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تعمیرات ، پیٹرولیم اور گاڑیوں کی صنعت کی نمو میں کمی آ رہی ہے ۔ برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ زر مبادلہ کے ذخائر میں 656 ملین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے ۔ یہ بات تو اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اسٹیٹ بینک کی سربراہی کس کے پاس ہے اس لیے اس جملے پر کسی کی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام سے معاشی استحکام بڑھا ہے ۔ اگر مہنگائی گزشتہ سات برس کی بلند ترین سطح پر ہے،پیدا وار میں کمی ہو رہی ہے ، کپاس جیسی فصل پوری نہیں ہو رہی ، تعمیرات کی صنعت کو نقصان ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ملک کی70 صنعتیں چلتی ہیں کاروں کی پیدا وار میں کمی ہو رہی ہے جو لوگوں کی قوت خرید میں کمی کا واضح اشارہ ہے اور پیٹرولیم کے شعبے میں پیدا وار کم ہو گئی ہے تو پھر اسے مستحکم معیشت کیسے کہہ سکتے ہیں ۔ حکمرانوں نے ایک مذاق بنا رکھا ہے کہ اطلاعات کی مشیر سے لے کر سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر تک ہر ایک کی زبان پر عمران خان کا وژن اور ملکی ترقی و خوشحالی کی خوش خبری ہے لیکن 106 روپے سے ڈالر 154 روپے پر جما ہوا ہے اسے روپے کی قدر میں استحکام کہا جا رہا ہے ۔ سبزی ، پھل اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوںمیں اضافہ ہو گیا ٹماٹر کی قیمت بڑھی اور 20 روپے والے ٹماٹر چار سو روپے تک پہنچ گئے ۔ اب 150 سے 200 کے درمیان حکومت کے بقول مستحکم ہے ۔اسی طرح خوردنی تیل ایک لیٹر200 روپے تک کا تھا اب 220 روپے میں ’’مستحکم‘‘ قیمت پر مل رہا ہے۔ آٹا بھی مہنگا ہو چکا اور دیگر اشیاء بھی ۔ پیٹرولیم ، گیس ، بجلی وغیرہ تو ماہانہ بنیادوں پر مہنگی ہو رہی ہیں لیکن آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے نمائندے مستحکم معیشت کی نوید دیے جار ہے ہیں ۔ جن فصلوں کی پیدا وار میں کمی ہو رہی ہے ان کے اثرات اگلی سہ ماہی میں پڑیں گے ۔ جہاں تک تعمیرات کی صنعت کی نمو میں کمی کا تعلق ہے تو اس کی براہ راست ذمے دار حکومت ہے جس کی پالیسیوں کے نتیجے میں تعمیرات کی صنعت کو بڑا نقصان ہوا ہے ۔ اب اس صنعت کو اٹھانے اور نئے سرے سے اس کو کھڑا کرنے میں بہت مشکل ہو رہی ہے ۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور ٹیکس کا محکمہ اس صنعت کو تباہ کرنے کے الگ اقدامات کرتا رہتا ہے ۔ اگر تعمیرات کی صنعت کو ترقی ملے تو 70 صنعتوں کا پہیہ چلنے لگے گا اور حکومت کی جانب سے ایک کروڑ ملازمتوں اور 50 لاکھ مکانات کے وعدے کی تکمیل میں بڑی مدد مل جائے ۔ لیکن حکومتوں کا طریقہ کار یہی ہوتا ہے کہ زبان زیادہ چلاتے ہیں اور کام کم کرتے ہیں ۔ اگر پاکستانی صنعتی برادری کو دیکھا جائے تو وہ بھی حکومت کے اقدامات کی مخالف ہے بلکہ حالیہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کو تو صنعتکاروں نے یکسر مسترد کر دیا ۔ یہ حکومت ہی تو ہے جس کی پالیسی کی وجہ سے پاکستان میں ٹریکٹر کی صنعت بھی تباہی کا شکار ہے۔ ٹریکٹر کی صنعت کو تباہ کرنے کا مقصد زراعت کو نقصان پہنچانا ہے ۔ اسی طرح محض قرضے ، ادھار یا بھیک مانگ کر چند کروڑ ڈالر زر مبادلہ کے ذخائر میں ڈال کر جاری خسارہ کم کرنے کا دعویٰ مضحکہ خیز ہے لیکن کسی حکمران کو اس سے فرق نہیںپڑتا ۔ مہنگائی کی شرح گزشتہ سات برس کی بلند ترین سطح پر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جن حکمرانوں مسلم لیگ ن اور پی پی پی کو عمران خان چور اور لٹیرا کہتے تھے ان کے دور میں مہنگائی کی یہ شرح نہیں تھی ۔ اگر موازنہ کیا جائے تو کوئی چیز بہتر نہیں ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران موازنہ کرنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہیںاور اب تو پوری پارلیمنٹ اس سے عاری نظر آتی ہے ۔معیشت کے استحکام کا پیمانہ حکمرانوں اور اسٹیٹ بینک وغیرہ کا الگ ہے اورعوام کا الگ ۔ عام آدمی تو اپنی آمدنی اور اخراجات کے گوشواروں سے معیشت کا حساب لگاتا ہے اور یہ عام آدمی روزانہ غربت کی لکیر سے نیچے ہی گرتا جا رہا ہے ۔ اسے اس سے غرض نہیں کہ زر مبادلہ کے ذخائر کہاں تک پہنچے اور روپے کی قدر میں کتنا استحکام آیا ۔ وہ تو جب دو پیسہ لے کر ضروریات زندگی خریدنے کو نکلتا ہے اور کئی چیزوں کی خرید سے دست بردار ہوتا ہے تو اسے روپے کی قدر میں استحکام کا تجربہ ہو جاتا ہے ۔ جو لوگ دو وقت دال روٹی کھا سکتے تھے اب وہ ایک وقت کا کھانا بمشکل کھا سکتے ہیں ۔ عمرانی حکومت ملک کی معیشت سنبھالنے اور غریبوں کو استحکام دینے کے بجائے لنگر خانے کھولنے میں لگی ہوئی ہے ۔ یہی کام تو کئی فلاحی تنظیمیں اور درگاہیں پہلے ہی کررہی ہیں ۔ زمینی حقائق کا ادراک نہیں تو زخموں پر نمک تو نہ چھڑکیں۔