مشرق وسطیٰ میں طاقت کا خونیں کھیل

384

امریکی ڈرون حملے میں ایران کی دفاعی اور تزویراتی پالیسی کے حکمت کار پاسداران ِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی جاں بحق ہوگئے۔ جس کے بعد خوف ودہشت اور غیر یقینی کا شکار خلیج کے تنگ وتاریک سرنگ میں نئے سفر کا آغاز ہوگیا ہے۔ قاسم سلیمانی کو بغداد میں سرِراہ نشانہ بنایا گیا۔ ڈرون حملے میں پانچ افراد مارے گئے۔ قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد ایران اور امریکا کا ردعمل حسب توقع ہی رہا۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کیا جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خوشی کے ساتھ اس کارروائی کا اعلان امریکی جھنڈے کے ساتھ ٹویٹر پر کیا۔ امریکیوں کے مطابق جنرل قاسم سلیمانی بہت سے امریکیوں کے قتل کے ذمے دار تھے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی اس قتل کی شدید مذمت کی۔ ایرانی وزارت خارجہ نے اسے ریاستی دہشت گردی قرار دیا۔ عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے بھی اسے جارحیت قرار دیا ہے۔ عراق کے ملیشیا لیڈر مقتدیٰ الصدر نے اس حملے کے بعد مہدی آرمی کو دوبارہ بحال کرتے ہوئے فائٹرز کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ شام نے بھی قاسم سلیمانی کے قتل کو بزدلانہ اقدام قرار دیا ہے۔ فلسطین کی آزادی پسند تنظیم حماس نے قاسم سلیمانی کو شہید قرار دیتے ہوئے اسے عدم استحکام کی طرف لے جانے والا امریکی قدم کہا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ نے قاسم سلیمانی کا بدلہ لینے کی بات دوٹوک انداز میںکی ہے۔ چین نے امریکا سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہا ہے جبکہ روس نے اس قدم سے خلیج میں کشیدگی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ خلیج کے دوسرے ملکوں سعودی عرب، قطر اور مصر نے تاحال جنرل قاسم سلیمانی کے قتل پر تبصرہ نہیں کیا۔
قاسم سلیمانی کو ایران کے راہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد طاقتور ترین شخصیت مانا جاتا ہے۔ قاسم سلیمانی آیت اللہ خمینی کے برپا کردہ انقلاب کی کوکھ سے جنم لینے والی اور شہنشاہیت کی راکھ سے اُبھرنے والی نسل کے نمائندہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مزاحمت اور مزاحمت کی حکمت کاری کی خُو ان کے رگ وریشے میں سرایت کیے ہوئے تھی۔ قاسم سلیمانی کا نام ایران کے عہدہ صدارت کے لیے بھی لیا جاتا رہا مگر عمومی تاثر یہی ہے کہ انہوں نے صدارت کی پابندیوں پر سپاہیانہ زندگی کو ترجیح دیے رکھی۔ جنرل قاسم سلیمانی امریکیوں کی ہٹ لسٹ پر تھے اور ان کے قتل کی منظوری دینے میں امریکی صدور کو ہمیشہ تامل رہا اور شاید اس کی وجہ قاسم سلیمان کا اثر رسوخ اور ایران کے لیے اہمیت تھی۔ وہ امریکیوں سے مستقل مخاصمت میں نہیں رہے بلکہ عراق میں انہوں نے صدام حکومت گرانے اور امریکا کو قدم جمانے کی راہ بھی فراہم کی۔ ان کی امریکا سے مخاصمت میں اس وقت تیزی آئی جب عرب بہار کے نام پر ایک مصنوعی سوشل میڈیا انقلاب نے عرب حکمرانوں اور بادشاہتوں کی چولیں ہلانا شروع کیں۔ یہ لہریں جب شام میں داخل ہوئیں تو جہاں روس جیسے ملکوںکے کان کھڑے ہوئے وہیں ایران نے بھی اس خطرے کو بھانپتے ہوئے عرب بہار کو اسپیڈ بریکر لگانے کا فیصلہ کیا۔ یہیں سے قاسم سلیمانی کی صلاحیتوں کا اصل امتحان شروع ہوا۔ قاسم سلیمانی نے بشار الاسد کی حمایت میں ایک غیر سرکاری مزاحمت اور عسکریت کو منظم کیا اور بشار الاسد کا اقتدار اب تک کئی خوفناک چیلنجز کے باجود اسی بنیاد پر کھڑا ہے۔
امریکی اخبار ’’نیویارکر‘‘ نے 2013میں جنرل قاسم سلیمانی کے کردار اور اہمیت کے حوالے سے ’’دی شیڈو کمانڈر‘‘ کے عنوان سے ایک اہم مضمون شائع کیا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ قاسم سلیمانی ایران کے ایسے مزاحمت کار ہیں جو مشرق وسطیٰ کی تشکیل نو میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ مضمون میں کہا گیا تھا کہ سلیمانی کردار اب ایران سے باہر ایران کے اثر رسوخ کو عسکری طور پر وسعت دینے تک محدود نہیں بلکہ وہ خارجہ معاملات کو سلجھانے میں بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ قاسم سلیمانی کی اس قدر اہمیت کے باعث امریکا کے سابق صدور سی آئی اے کے جس منصوبے پر دستخط کرنے سے گریزاں تھے داخلی بحران اور مواخذے کی دلدل میں پھنسے ڈونلڈ ٹرمپ نے وہ دستخط کرکے نتائج بھی حاصل کر لیے مگر یہ فیصلہ خطے کے مستقبل کو ایک نئی صلیب پر لٹکانے کا باعث بن گیا۔ ٹرمپ کے اس فیصلے کو امریکا میں پوری طرح پزیرائی حاصل نہیں کیونکہ ان کے فیصلے پر تنقید کا سلسلہ امریکا کے اندر بھی جاری ہے۔ اس فیصلے کے ناقدین کو ایران کا ردعمل خوف زدہ کیے ہوئے ہے۔ ایران کے لیے یہ ایک اعلان جنگ ہے مگر حالات کی گیند اب امریکا کے بجائے ایران کی کورٹ میں ہے۔ ایران صبر کا جام پی کر امریکا کے ساتھ براہ راست تصادم کو ٹال سکتا ہے اور بھرپور ردعمل ظاہر کرکے ایک خوفناک تصادم کا آغاز کر سکتا ہے۔ ایک مضبوط رائے تو یہ بھی ہے کہ ایران ردعمل دکھائے یا صبر کا کڑوا گھونٹ پی لے امریکا نے بالکل اسی طرح اسے سزا دینے کی ٹھان رکھی ہے جس طرح صدام اور قذافی کو ایک بعد دوسرے بہانے کے نام پر گھیرنے کا کھیل چل رہا تھا۔ صدام حسین ایک کے بعد دوسری پابندی پر عمل درآمد کرتے کہ امریکی اقوام متحدہ کے نام پر تیسری شرط اور کوئی نیا مطالبہ لے کر آدھمکتے۔ چونکہ کھیل بڑا ہے اس لیے علاقائی ممالک کے بس میں اسے روکنا نہیں۔ یہ حقیقت میں مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور جنوبی ایشیا میں بھارت کو حتمی بالادستی دینے کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو روکنا ہے تو روس اور چین جیسے ملکوں کو اسی طرح ایک لکیر کھینچ کر آگے آنا ہوگا جس طرح شام میں روس نے امریکی پیش قدمی کے آگے ایک لکیر کھینچ لی تھی۔ یہ باریوں کا وہی کھیل ہے جس کا آغاز نائن الیون کے وقت مغضوب الغضب جارج بش دوم نے ’’بدی کے محور‘‘ ملکوں کی فہرست جاری کرتے ہوئے کیا تھا۔ ایران، عراق، شام وغیرہ کے نام تو اس پانچ رکنی فہرست کا اعلانیہ حصہ تھے مگر اس وقت کے امریکی میڈیا، تھنک ٹینکس اور دانشور طبقے کے خیالات کو یاد کریں تو اس فہرست کے دوغیر اعلانیہ نام بھی تھے جو پاکستان اور سعودی عرب تھے جن پر امریکی نائن الیون کی اصل ذمے داری عائد کر رہے تھے۔ ماضی قریب کی اس سوچ کو دیکھتے ہوئے یہ حقیقت فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ امریکا نے ایران پر آکررکنا ہرگز نہیں۔