این ایل ایف کے پچاس سال

304

قاسم جمال
محنت کش طبقہ کسی بھی قوم اور ملک کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ سویت یونین کے ٹوٹنے سے قبل محنت کشوں میں رائٹ اور لیفٹ کی سیاست عروج پر تھی اور ایک لہر تھی جو پاکستان کی اساس پر حملہ آور تھی۔ پاکستان میں مزدوروں میں کام کرنے والی نیشنل لیبر فیڈریشن جو سید ابوالاعلی مودودیؒ کی خواہش پر قائم کی گئی تھی اور آج سے پچاس سال قبل جب محنت کشوںکے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم قائم کیا گیا جس کا درخشاں ماضی ہمیشہ سنہرے الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔ سرخ سویرے کے طوفان کو این ایل ایف نے اپنے زور بازو سے روکا اور انہیں ہر مرحلے میں شکست فاش دی۔ پاکستان کے اہم قومی اداروں پی آئی اے، پاکستان اسٹیل، پی این ایس سی، کراچی شپ یارڈ، کے ایم سی، ریلوے ودیگر اداروں میں فقیدالمثال کامیابی حاصل کی۔ آج جب پاکستان کی اسلامی مزدور تحریک اپنے قیام کے پچاس سال مکمل کرچکی ہے۔ این ایل ایف ملک بھر میں اپنی گولڈن جوبلی کی تقریبات منعقد کر رہی ہے۔ دوسری جانب انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) جو اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ ہے اور انسانی حقوق اور مزدور مسائل کے لیے دنیا بھر میں کام کر رہا ہے بھی اپنے قیام کے سو سال مکمل کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں آئی ایل او کے تحت دنیا بھر میں پروگرامات منعقد کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان جہاں بھوک، غربت، بے روزگاری کا راج ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام پوری قوت کے ساتھ محنت کشوں کا استیصال کر رہا ہے۔ دو وقت کی روٹی کمانا بھی محال ہوگیا ہے۔ حکمرانوں نے ہمیشہ محنت کشوں کو سنہرے خواب دکھائے اور قوم کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ قومی ادارے اسٹیل مل، پی آئی اے ودیگر تباہ وبرباد ہوچکے ہیں، ہر ذی شعور اچھی طرح جانتا ہے کہ ان قومی اداروں کی تباہی میں محنت کشوں کا کوئی ہاتھ نہیں، یہ قومی ادارے کرپٹ نوکر شاہی اور بدعنوان حکمرانوں نے اپنی کرپشن اور لوٹ مار کے ذریعے تباہی کی جانب دکھیلے اور ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا۔
طلبہ یونین پر پابندی اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر قدغن لگائی گئی اور پاکٹ یونین کی سرپرستی کی گئی۔ ٹریڈ یونین پر اکثریت مفاد پرستوں اور زرپرستوں کی غالب رہی جنہوں نے ہر جگہ مزدور کو بیچا ان کی بولی لگائی اور اپنی جیبیں گرم کیں۔ ان کے چہرے بھی سب پر عیاں ہیں، ان مفاد پرستوں نے ٹریڈ یونین سرگرمیوں کو بدنام کیا۔ آج اٹھارویں ترمیم نے ٹریڈ یونین سرگرمیوں کا صحیح معنوں میں قتل عام کیا۔ این آئی آرسی سے یونین کی رجسٹریشن جوے شیر لانے کا کام ہے اور اس سے کرپشن اور دولت کا استعمال ہوا۔ سرمایہ دار کی جیت ہوئی اور بد سے بد حال پاکستان کا مزدور پیشہ ور مزدور لیڈروں کی بھینٹ چڑھا اور ان ظالموں نے بھی ان کے جسم کے خون کا آخری قطرہ بھی چوس ڈالا۔ مزدور تحریک کو اگر غیروں اور سرمایہ دار طبقہ نے برباد کیا ہے تو سب سے زیادہ ہاتھ ان پیشہ ور مزدور فیڈریشن کے لیڈروں کا ہے جنہوں نے پیشہ ور وکلا کی دلالی کی اور مظلوم محنت کشوں کی حلال کی جمع پونجی آپس میں تقسیم کی۔ ظلم کا یہ نظام کوئی نیا نہیں ہے۔ سید ابوالاعلی مودودی ؒ نے ایک خواب دیکھا تھا کہ پاکستان کا مظلوم اور مجبور طبقہ ان پیشہ ور گدھوں سے آزاد ہو اور آزادانہ طریقے سے اپنی مثبت سرگرمیوں کے ذریعے محنت کشوں کی بہتر انداز میں خدمت کر سکے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان سے صوبائی خودمختاری کو ختم کیا گیا۔ جمہوری اداروںکو کمزور کیا گیا اور ان کا تماشا لگایا گیا۔ ایوب خان اور قومی اتحاد کی تحریک میں طلبہ تنظیموں اور مزدوروں نے اہم کردار ادا کیا جبھی سے اسٹیبلیشمنٹ نے فیصلہ کیا اور طلبہ تنظیموں کے ساتھ ساتھ ٹریڈ یونین سرگرمیوں کا بھی گلا گھونٹ دیا گیا۔
جب مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا یہ الگ بات کہ وہ غلط تھا یا صحیح یا پھر کامیاب تھا یا ناکام، مولانا کے اس دھرنے نے بہت سے لوگوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ ایسے میں اچانک طلبہ تنظیموں کے نام پر سرخ سویرا نے بھی کروٹ لی۔ روس کے خاتمے کے بعد قوم ان کا کریا کرم کر بیٹھی تھی لیکن یہ عالم شوق کہ سب لال لال ہوجائیگا کہ نعرے لگانے وہ نے وہ طوفان بدتمیزی کا مظاہرہ کیا کہ الامان الحفیظ۔ قوموں کو تقسیم کرنے والے اور سرخ سویرا کے نعرے لگانے والوں کے عزائم اور ان کے کارناموں سے قوم واقف ہیں۔کون لوگ ہیں جوان کی ڈوریاں ہلا رہے ہیں اور کہاں سے انہیں فیڈ بیک مل رہا ہے قوم سب جانتی بھی اور پہنچانتی بھی ہے۔یہ 2020ہے۔دریاوں کے پل کے نیچے بہت ساپانی گزر چکا ہے۔این ایل ایف نے 1968میں پی آئی اے سے سرخ سویرا کو دیس نکال دیا تھا اس وقت بین الاقوامی طور پر روس چین ودیگر مغربی مالک کے وسائل اور فنڈ سے وہ مالا مال تھے لیکن آج جب کہ ان کے جسموں میں جان نہیںہے اور پاکستان کے نظریاتی کارکن کا ان میں مقابلہ کرنے کی بھی سکت نہیں ہے۔پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا اور اسلام ایک مکمل کامل دین اور ایک نظام ہے۔پاکستانی قوم نے شوشلزم، کمیونزم، جمہوری اور فوجی حکمرانی کے ادوار دیکھ لیے ہیں اور اب اسلام کی باری ہے۔رسول اللہؐ نے جب ریاست مدینہ قائم کی تو پھر دنیا بھر میں اسلام کا پیغام اور دعوت پہنچی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ عرب کے ان بدوںنے وہ ریاست قائم کی کہ زکوۃ بانٹنے لوگ نکلتے تھے اور کوئی زکوۃ لینے والا نہیں ملتا تھا۔آج بھی ہم قرآن کو اپنا امام بنا لیں اور اسلام کو بطور نظام دنیا پر عملی طور پر نافذ کردیں تو دنیا میں کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔مالک اور مزدور کی جنگ ختم ہوجائے گی۔اسلام تو یہ کہتا ہے کہ مزدورکی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دی جائے۔جب یہ نظام دنیا میں عملی طور پر نافذ ہوجائیگا تو پھر اللہ کی رحمت بھی آئے گی۔ملک میں خوشحالی ترقی کا دوردورہ ہوگا۔عدل انصاف فروخت نہیں ہوگا،تعلیم علاج روزگار ریاست کی ذمہ داری ہوگی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس بڑی تبدیلی کے لیے اپنا اہم کردار ادا کریں۔ووٹ کی پرچی کو برچھی بنا لیں اور دیانت دار لوگوں کو اسمبلی میں پہنچائے۔70سال سے غریبوں کا استحصال کرنے والو کو اقتدار سے اتار پھینکا جائے اور اقتدار اعلی اللہ ڈرنے والے خوف خدارکھنے والے صالحین کے حوالے کیا جائے اور اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام عملی طور پر قائم کیا جائے۔پاکستان جس مقصداور جس کام کے لیے قائم کیا گیا وہ مقصد حاصل کیا جائے تاکہ22لاکھ شہداء کی روحوں کو سکون اور چین حاصل ہوں اورپاکستان کو علامہ اقبال اور قائد اعظم کا پاکستان بنایا جا سکے۔
,,پھردلوں کو یاد آجائے گا پیغام سجود
پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہوجائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی،،