امریکا اور اس کے زیر قیادت اتحادیوں نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے ساتھ ہی دہشت گردوں کے خلاف عراق میں آپریشن معطل کردیا ہے اور اعلان کیا کہ اب ان کااصل مقصد اپنا دفاع کرنا ہے۔
امریکا کی یہ مدافعانہ حکمت عملی داعش کے لئے خوشخبری ہے کیونکہ اس کو مقامی خطے میں اپنی “خلافت” کے ٹوٹنے سے جو نقصان ہوا تھا اب امریکا کے مدافعاتی لائحہ عمل سے اسے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا موقع مل گیا ہے اور ہو سکتا ہے اس کی وارداتوں میں مزید تیزی آجائے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ عراقی پارلیمنٹ نے پورے ملک سے فوری طور پر امریکی انخلا کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک تحریک بھی منظور کرلی ہے۔
عراق اور شام کے علاقے پر داعش کا کنٹرول ختم کرنے کے لئے سن 2016 اور 2017 میں ایک بڑے فوجی آپریشن کی ضرورت تھی اورعراق میں ایسی ایلا ئٹ آرمی اور پولیس یونٹ موجود ہے جن کو داعش کے خلاف جنگ میں شامل کر نے کے لئے امریکا اور یورپی اتحادیوں نے تربیت دی ہے۔
مشرقی وسطیٰ اور بلخصوص عراق کو اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ داعش کئی سالوں سے انتہائی لچکدار رہا ہے۔ داعش کےکئی اہم سرغنوں کی موت یا جیل میں نظر بند ہونے کے باوجود یہ تنظیم اب بھی اپنے ناپاک ارادوں سے لیس ہے اور عراق اور شام میں اپنے مقامات میں بھتہ لینا اور مزید زندگیوں کے خاتمے میں سرگرم ہے۔