اسلامی نظریاتی کونسل اور فواد چودھری

303

اسلامی نظریاتی کونسل نے نیب آرڈیننس کی چند دفعات کو غیر شرعی قرار دیا ہے اور بہت صحیح بات کی ہے۔ لیکن اس پر اعتراض کرنے والوں نے کسی دلیل کا سہارا لینے کے بجائے کونسل کے وجود ہی کو غیر ضروری قرار دے دیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے جن دفعات کو غیر شرعی قرار دیا ہے وہ نہ صرف شریعت کے منافی ہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین میں بھی ان کی گنجائش نہیں۔ مثلاً نیب قانون کے مطابق بار ثبوت ملزم پر ڈالا گیا ہے۔ یعنی کسی کو بھی گرفتار کر کے اس سے کہا جائے کہ جو الزام اس پر عاید کیا گیا ہے وہ اسے غلط ثابت کرے۔ کتنے ہی لوگوں کو نیب نے گرفتار کر کے ان کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا بوجھ ان ہی پر ڈال رکھا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے بھی کہا ہے کہ نیب پہلے کسی کو گرفتار کرتا ہے پھر ثبوت تلاش کرتا ہے۔ پاکستان کو ریاست مدینہ کے مماثل بنانے کا دعویٰ کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ریاست مدینہ میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ سیدنا عمرؓ کو معلوم تھا کہ ابو لولوفیروز نے ان کو قتل کی دھمکی دی ہے اور صحابہؓ کے یہ کہنے پر کہ اسے گرفتار کرلیا جائے، عمرؓ نے کہا کہ جب جرم سرزد ہی نہیں ہوا تو کیسے گرفتار کیا جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے قرار دیا ہے کہ جرم ثابت ہونے سے پہلے ملزم کو ہتھکڑی لگانا خلاف شریعت ہے۔ اسی طرح وعدہ معاف گواہ اور پلی بارگین کو اسلام کے قانون جرم و سزا کے منافی قرار دیا گیا ہے ۔ پاکستان میں قرآن و سنت سے متصادم قانون آئین کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں طے کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں ہوگا۔ دیکھا جائے تو پلی بارگین کا مطلب مجرموں اور لٹیروں سے سود ے بازی ہے کہ اگر ایک کروڑ لوٹے ہیں تو 50 لاکھ دے کر چھوٹ جائو۔ باقی رقم کون دے گا۔ پلی بار گین کرنے والا خود اپنے جرم کا اعتراف کررہا ہے لیکن نیب اسے اپنا کارنامہ قرار دیتا ہے۔ گزشتہ جمعہ ہی کو نیب سکھر نے فخریہ اعلان کیا ہے کہ پلی بارگین سے اتنے کروڑ روپے سرکاری خزانے میں جمع کرادیے گئے۔ اسی طرح وعدہ معاف گواہ کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں۔ وعدہ معاف گواہ شریک جرم ہوتا ہے لیکن اپنے لیے کچھ رعایت یا معافی ملنے کی توقع میں دوسرے کے خلاف گواہی دینے پر تیار ہو جاتا ہے۔ ان اصولی باتوں پر وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کا برہم ہونا شاید حیرت انگیز نہیں کیوں کہ کوئی اختلافی بات کر کے خبروں میں رہنا ان کا شوق ہے۔ ان کا یا ان کی وزارت کا اسلامی نظریات یا کونسل سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اس سے پہلے وہ رویت ہلال کمیٹی اور اس کے چیئرمین پر الزام لگا چکے ہیں۔ اب وہ فرماتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا وجود ہی غیر ضروری ہے اور اس پر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے کی رقم ضائع ہو رہی ہے۔ رقم تو وزارت سائنس و ٹیکنالوجی پر بھی ضائع ہو رہی ہے جس کی سربراہی ایک ایسے شخص کے پاس جسے سائنس کا علم ہے نہ ٹیکنالوجی کی واقفیت۔ فواد چودھری نے فرمایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل نو کی جائے اور انتہائی جید لوگ اس ادارے کو سنبھالیں۔ یعنی اس وقت جو لوگ کونسل کو سنبھال رہے ہیں وہ شاید جاہل لوگ ہیں۔ اس کی سربراہی بھی فواد چودھری کو دے دی جائے کہ وہ بہت جیّد ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ آج تک مذہبی طبقات کی سوچ کو اسلامی نظریاتی کونسل سے کوئی رہنمائی نہیں ملی۔ اس کی مثال انہوں نے یہ دی ہے کہ کم عمری کی شادی پر کونسل نے کوئی رائے نہیں دی جب کہ سعودی عرب نے کم عمری کی شادی پر پابندی لگا دی ہے۔ ان کے علم میں شاید یہ نہ ہو کہ جس امریکا کی ہمارا مقتدر طبقہ پیروی کرتا ہے ، اس کی ریاستوں میں کم عمری کی شادی پر کوئی پابندی نہیں اور کچھ ریاستوں میں کم سے کم عمر 14برس ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام آئین کے تحت ہوا ہے۔ رہی یہ بات کہ کونسل نے کبھی مذہبی طبقات کی سوچ کی رہنمائی نہیں کی تو فواد چودھری ان طبقات کی نشاندہی بھی کردیں اور اب اگر نیب کے کچھ قوانین کو غیر شرعی قرار دیا جارہا ہے تو فواد چودھری اور ا ن کی حکومت کم از کم اس سے ہی رہنمائی حاصل کریں۔ کونسل پر ان کی برہمی کا جواز سمجھ سے بالا تر ہے۔