عوام کی آنکھوں میں کتنے سہانے خواب تھے جب انہوں نے انتخابات میں ووٹ دیے؟ یہ کوئی جانتا ہے؟ لیکن ڈیڑھ سال میں کیا ملا؟ حکومت کی پالیسی سے عوام کیا توقعات رکھتے ہیں یا انہیں اپنے مسائل کے حل کی کیا امید ہے، یہ سب صرف وہ جانتے ہیں جنہیں آج روزگار میسر ہے اور روزگار میسر ہے تو بروقت تنخواہ نہیں مل رہی‘ فٹ پاتھوں پر دسترخوان سجے ہوئے ہیں تو ان کی زندگی کی ڈور چل رہی ہے‘ کیا یہ کوئی مستقل حل ہے؟ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک ایسے ماحول میں رہے اور زندگی بسر کرے جہاں امن ہو‘ انصاف ہو‘ روزگار ہو‘ اور کوئی مافیا اسے تنگ نہ کرے‘ جب ووٹ دیے جارہے تھے تو لوگ پر اُمید تھے کہ شاید اس بار تبدیلی آجائے گی لیکن کیا تبدیلی آئی؟ یہ سوال فٹ پاتھ پر بیٹھے کھانا کھاتے ہوئے لوگوں سے پوچھیں تو جواب ملے گا‘ یہ سوال ان لوگوں سے پوچھا جائے جن کی کمائی مافیا اور قبضہ مافیا کے ہاتھوں لٹ رہی ہے‘ لوگ کہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت ہے‘ سنا ہم نے بھی یہی ہے کہ ملک میں جمہوریت ہے‘ مگر یہی جمہوریت کہیں نظر بھی تو آنی چاہیے۔
سنا تھا ملک کے ایک چیف جسٹس نے قبضہ مافیا کے خلاف سخت ایکشن لیا تھا مگر اب سنا ہے کہ مافیا پہلے سے زیادہ متحرک ہوچکا ہے‘ لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد‘ پشاور اور کوئٹہ کیا یہ شہر قبضہ مافیا سے محفوظ ہیں؟ لاہور ان کا گڑھ بنا ہوا ہے‘ پورے لاہور میں ٹائون شپ سے لے کر بھیلے بٹ تک ایک ہی کہانی پھیلی ہوئی ہے۔ لاہور میں کام کرنے والی سیاسی جماعتیں بھی جانتی ہیں اور سیاسی شخصیات بھی ان سے واقف ہیں۔ قبضہ مافیا نے شہر کو تقسیم کر رکھا ہے اور قبضہ کے لیے علاقے بانٹ رکھے ہیں‘ کوئی کسی کے علاقے میں مداخلت نہیں کرتا گورنر پنجاب چودھری سرور جانتے ہیں کہ پنجاب میں قبضہ مافیا کس طرح کام کرتا ہے اور کون اس کا سرپرست ہے اور اس مافیا کے کتنے سرپرست اس وقت پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ پارلیمنٹ کے رکن کیسے منتخب ہوجاتے ہیں؟ ایل ڈی اے میں سنا تھا کہ تبدیلی آئی ہے اور نئے سربراہ قبضہ مافیا کو لگام ڈالیں گے ابھی تک ہمیں ان کے متحرک ہونے کا انتظار ہی ہے‘ ہم نے تو یہ بھی سنا تھا کہ محکمہ ایکسائز کے سربراہ بھی متحرک ہوئے ہیں اور جائزہ لے رہے ہیں کہ اس محکمے کے کتنے ملازم قبضہ مافیا کے کارندے ہیں مگر کیا کریں؟ ایک کے بعد ایک حکومت آئی اور گئی مگر کارندے وہیں کے وہیں اپنا کام کر رہے ہیں۔ کیا کوئی ایسا محکمہ ہے جو ان لوگوں کی داد رسی کرسکے جن کے پلاٹوں پر قبضہ ہو چکا ہے اور قبضہ مافیا عدالتی حکم امتناع کے بل پر تحفظ کی چادر اوڑھے لیٹا ہوا ہے صرف اتنا کہنا ہے کہ ایک رد عمل اور اشتعال ضرور پیدا ہوکر رہے گا ظالم کے مقابلے میں مظلوم کو صبر کی تلقین کی جاتی رہے گی اور مظلوم کب تک خاموش رہے گا مظلوموں کی یہ خاموشی اللہ کی لاٹھی کو پکار رہی ہے اللہ اور مظلوم کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔
حکمرانوں کے بلند بانگ دعوئوں اور رنگین وعدوں کو چھوڑیں لیڈروں کے بیانات کی آتش بازی کا مقابلہ جاری رہتا ہے‘ حکمرانوں نے کہا تھا کہ این آر او نہیں دیا جائے گا لیکن یہ قبضہ مافیا کو این آر او کس نے دے رکھا ہے؟ اسلام آباد میں تجاوزات کی بھرمار ہے‘ مارکیٹوں میں فٹ پاتھ نظر ہی نہیں آتے‘ بلیو ایریا سے لے کر شہر کی ہر بڑی چھوٹی مارکیٹ اس کی زد میں ہے‘ بڑے ہوٹلوں نے برآمدے بند کر رکھے ہیں‘ بلیو ایریا میں ایک بڑی مشہور دکان نے سی ڈی اے کی پندرہ فٹ سڑک اپنی دکان کی بیس منٹ کا حصہ بنا لی ہے، انہیں این آر او کس نے دیا ہے۔ کوئی جانتا ہے تو سی ڈی اے کے چیئرمین کو جاکر بتائے ایک اہم معاملہ یہ بھی ہے کہ سود خور مافیا نے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبات میں اپنا مضبوط نیٹ ورک قائم کیا ہوا ہے، سود خور اور ان کے کارندے سرکاری وغیر سرکاری دفاتر، گلی، محلوں اور بازاروں میں منڈلاتے رہتے ہیں جہاں بے روزگار، علاج ومعالجہ، بچوں کی تعلیم وتربیت، بہن، بیٹی کی شادی بیاہ اور گھریلو اخراجات برداشت نہ کرنے والے قرضہ لے کران کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں، اگر کوئی ضرورت مند ایک لاکھ روپے قرضہ لیتا ہے تو اس سے منافع کے نام پر 10سے 15ہزار روپے تک ماہانہ سود وصول کیا جاتا ہے اور باقاعدگی سے قسط نہ دینے پر اس کی تذلیل کی جاتی ہے غریب ان کے جال میں پھنسے رہتے ہیں جو بھی سود خور مافیا کے چنگل میں ایک بار پھنس گیا، پھر نکل نہیں سکا ضرورت اس امر کی ہے کہ سامان اور رقم کا غیر قانونی کاروبار کی روک تھام کرنے اور مجبور پسے ہوئے عوام کو ان کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے ضلعی انتظامیہ اور پولیس اپنا بھر پور کردار ادا کرے۔