محمد اکرم خالد
گزشتہ دنوں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے کثرت رائے سے منظور کرا لیا گیا اس بل کی منظوری میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اہم کردار ادا کیا جبکہ مخالفت جماعت اسلامی، نیشنل پارٹی، اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی نے کی۔ جہاں سیاستدانوں نے مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے کو سیاسی رنگ دیا وہاں اس بات کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ مدت ملازمت میں توسیع نے فوج کی ساکھ کو نقصان پہچایا ہے۔ آخر ایسی کیا ضرورت پیش آئی کہ آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع دینا ضروری سمجھا گیا یا ایسا کیا تھا کہ آرمی چیف توسیع کے معاملے میں بضد تھے۔ فوج کے پاس با صلاحیت اور قابل افسران موجود ہیں۔موجودہ حکومت ایک حساس ادارے کی ساکھ کو قائم نہیں رکھ سکی جس کے بعد اب کوئی دو رائے نہیں رہی ہے کہ حکومت اداروں کے پیچھے اور ادارے حکومت کی پشت پناہی کرتے دکھائی دے رہے ہیں یہ جمہوریت کی کامیابی ہے یا ناکامی یہ وقت کو ثابت کرنا ہے۔
یقینا اس معاملے کے بعد حکومت کافی ریلیف محسوس کرے گی اور اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کو بھی شاید ریلیف مل جائے کیوں کہ یہ بات اب کافی حد تک واضح ہوچکی ہے کہ پیپلز پارٹی ن لیگ اپنے بیانیے سے راہ فرار اختیار کر چکے ہیں۔ ن لیگ اس وقت قیادت سے محروم نظر آرہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب غریب عوام مہنگائی کے دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں، بجلی، گیس، روزگار کا بحران شدت اختیار کر رہا ہے، ہر روز مہنگائی کے بم عوام پر گرائے جار ہے ہیں بھارت پاکستان پر اور امریکا ایران پر جنگ مسلط کرنے کی سازش میں مصروف ہیں جنوبی اشیاء کا خطہ مسائل کی زد میں ہے ایسے میں حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں کرپشن کے الزامات پر سیاسی ریلیف لینے کی جدوجہد کرتی نظر آرہی ہیں۔ یقینا میاں صاحب بڑی بیماری میں مبتلا ہیں جس کے لیے پوری قوم دعا گو ہے۔ مگر اب ایسا محسوس کیا جارہا ہے کہ میاں صاحب کی بیماری کو شہباز شریف اور مریم بی بی سیاسی ریلیف کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ شہباز شریف کا بیرون ملک قیام سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک طرف ملک کے سیاسی منظر نامے سے اپوزیشن لیڈر غائب ہے اپوزیشن لیڈر کا منصب اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ غریب عوام کی ایک بلند آواز سمجھا جاتا ہے اور یہ بھی یاد رکھا جائے کہ حکومت کو سب سے بڑا خطرہ اپوزیشن ہی سے ہوتا ہے مگر یہاں تو سب سیاسی کھیل چل رہا ہے۔ حمزہ شہباز سمیت ن لیگ کے سینئر رہنما نیب کی حراست میں ہیں تو دوسری جانب مہنگائی کے ہاتھوں عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں، ن لیگ بکھرتی نظر آر ہی ہے، اپوزیشن لیڈر لندن میں آرام فرما رہے ہیں اور مریم بی بی کسی ڈیل کے نتیجے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور بیرون ملک روانہ ہونے کی جدوجہد میں مصروف ہیں کچھ ایسا ہی حال پیپلز پارٹی کا ہے سندھ بشمول کراچی مسائل کا گڑھ بنتا جارہا ہے، ۱۲ سال سے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کراچی شہر کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے، بلاول زرداری آئے روز حکومت کو گھر بھیجنے کی نوید سناتے ہیں اور دوسری جانب جمہوریت بچانے کی آڑ میں کسی ڈیل کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہ مفاد پرست سیاسی رویہ ہے جس نے پاکستان میں ہمیشہ جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔
جمہوریت کو بچانے والے پنڈت اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں اشرافیہ اور اداروں کے مسائل پر تو فوری یکجہتی کا مظاہر کرتے ہوئے قانون بنا دیے جاتے ہیں آئین میں ترمیم کر دی جاتی ہے مگر وہ غریب عوام جن کے دم پر ادارے قائم ہیں جن کے مسائل پر سیاست کی جاتی ہے جن کے ووٹ کی بھیک سے اقتدار پر براجمان ہونے کے سہانے خواب دیکھے جاتے ہیں، مگر ۷۲ برس گزار جانے کے باوجود عوام روٹی کپڑا مکان علاج تعلیم انصاف سے محروم ہیں۔ ہر دور میں عوام کو جھوٹی تسلی دے کر اقتدار حاصل کیا جاتا رہا ہے اور اگر اب بھی چہروں کی جگہ نظام کو تبدیل نہیں کیا گیا تو شاید یہ قوم مسائل کے حل کی تمنا لیے اس دنیا سے رخصت ہوجائے گی اگر کسی بھی حساس معاملے پر قانون اور آئین میں ترمیم کی جاسکتی ہے تمام جماعتیں یکجہتی کا مظاہر کر سکتی ہیں تو غریب کے مسائل پر کیوں نہیں۔ اگر آرمی ایکٹ ترمیمی بل کسی خوف کی وجہ سے منظور کیا گیا ہے تو پھر سیاسی وذاتی مفاد پرست سیاستدانوں کو یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جو عوام آپ کو کرسی پر بیٹھا سکتے ہیں وہ کرسی کو گرانے کی بھی طاقت رکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر روز آخرت اللہ کی پکڑ سے آپ نہیں بچ سکتے۔