دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی کہتی ہیں کہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیرمین سید علی گیلانی تحریک آزادی کشمیر کی سب سے قابل احترام شخصیت ہیں کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد میں ان کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دفتر خارجہ میں میڈیا بریفنگ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ترجمان نے سید علی گیلانی کا نام لے کر ان کی تعریف کی ہو‘ عائشہ فاروقی نہایت قابل سفارت کار ہیں وہ قائد اعظم یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ 1994 میں انہوں نے وزارت خارجہ میں افسر کی حیثیت سے قدم رکھا اور اپنے پچیس سالہ سفارتی کیرئیر میں وہ مصر‘ یورپ اور امریکا سمیت بہت سے ممالک میں خدمات انجام دے چکی ہیں اور سفارت کاری پر متعدد کتابوں کی مصنفہ ہیں غالباً ان کی یہ ان کی دوسری بریفنگ تھی جس میں وہ ترجمان کی حیثیت سے میڈیا سے مخاطب تھیں۔ شائستہ زبان‘ اجلی شخصیت اور کام میں مکمل مہارت انہیں حاصل ہے۔ کشمیر کی حالیہ صورت حال پر وہ غم زدہ اور رنجیدہ نظر آتی ہیں لیکن سفارتی ذمے داریاں انہیں باوقار انداز میں حقائق بیان کرنے پر مجبور کرتی ہیں کہتی ہیں کہ جموں و کشمیر کے تنازع پر گیلانی صاحب کے بیانات پر حکومت پاکستان کی طرف سے انتہائی سنجیدگی سے توجہ دی جارہی ہے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں جدوجہد آزادی کشمیر میں ثابت قدمی سے حمایت کا پیغام دیا گیا ہے۔ ترجمان نے یہ سب کچھ اس وقت کہا کہ کشمیر میں لاک ڈاون کو 158 روز ہوگئے، 80 لاکھ کشمیریوں کے دنیا سے رابطے کٹے ہوئے ہیں مقبوضہ کشمیر میں غذائی قلت پیدا ہو چکی جبکہ ذرائع مواصلات بند ہیں بھارت کے غیر قانونی اقدام کو پوری دنیا میں مخالفت کا سامنا ہے۔ انہیں امید ہے بھارت نے جن سفیروں کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دی ہے، انہیں حریت قیادت سے ملنے کی اجازت بھی ہوگی۔
پاکستان خطے میں امن کی کوششوں کی حمایت کرے گا بلاشبہ یہ خطہ اس وقت بہت سنگین حالات سے گزر رہا ہے کرتار پور راہداری کھولنا وزیراعظم کا وژن ظاہر کرتا ہے بھارت کے غیر قانونی اقدام کو پوری دنیا میں مخالفت کا سامنا ہے، بھارت غیر ملکی سفارت کاروں کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پچھلے سال اگست میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد سفارت کاروں کا یہ پہلا سرکاری دورہ ہے۔ دہلی سے سفیر سرینگر کے ہوائی اڈے پر خصوصی چارٹرڈ طیارے کے ذریعے پہنچے وفد میں امریکا کے علاوہ بنگلا دیش، ویتنام، ناروے، مالدیپ، جنوبی کوریا، مراکش اور نائیجیریا کے سفیر بھی شامل ہیں۔ یورپی یونین کے نمائندے اس گروپ کا حصہ نہیں ہیں یورپی یونین کے کچھ سفیروں نے یہ بھی کہا تھا کہ مختصر اطلاع کی وجہ سے انہیں اپنے ملکوں سے ہدایات لینے کا وقت نہیں ملا جموں و کشمیر میں زمینی صورتحال میں بڑے پیمانے پر بہتری کی توقع ہے۔ بھارتی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت دیے گئے۔
ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور اسے دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کرنے کے تین ماہ بعد اکتوبر 2019 میں یوروپی یونین کے ارکان پارلیمان کو جموں و کشمیر کا دورہ کرایا تھا، جس کا مقصد صورتحال کا جائزہ لینا تھا9 جنوری 2020 سے شروع ہونے والے اس دو روزہ دورے کے لیے بھی اسی طرح کے شیڈول کا منصوبہ بنایا گیا جس میں امریکا، لاطینی امریکا اور افریقا کے 16 سفیر شامل تھے آسٹریلیا اور متعدد خلیجی ممالک کے سفارت کاروں کو اس میں شامل ہونا تھا لیکن حالات کی سنگینی کی بنا پر انہیں اس دورے میں شامل نہیں کیا گیا وہ اپنی مرضی کے مطابق آزادانہ طور پر ملنا چاہتے تھے۔ اکتوبر میں، حکومت نے یوروپی یونین کے 23 قانون سازوں کو جموں و کشمیر جانے کی اجازت دی تھی تب تک اپوزیشن کو ریاست کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں تھی کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کی سربراہی میں ایک وفد سری نگر ہوائی اڈے سے واپس کردیا گیا تھا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افوج نے 26جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ سے پہلے محاصروں اور تلاشی کی کارروائیوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ سال نو کا ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود نیا سال 2020 کے کیلنڈر کے بارے میں ابھی بھی تجسس برقرار ہے کیونکہ ابھی تک سرکاری تعطیلات کی فہرست جاری نہیں کی گئی ہے تاہم یہ بات طے ہے کہ جو سرکاری تعطیلات وادی کشمیر میں سال ہا سال سے دی جاتی تھیں یا تو ان میں کمی لائی گئی ہے یا ان کو مکمل طور ختم کیا گیا ہے۔ منسوخ کی جانے والی چھٹیوں میں 13جولائی اور 5دسمبر کو شامل کیا گیا ہے۔ ان سرکاری تعطیلات کو ختم کیے جانے کے تعلق سے عام لوگوں کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ تیرہ جولائی یوم شہدا کے بطور منایا جاتا تھا وہیں اس دن مین اسڑیم جماعتوں کے لیڈران کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی مزار شہدا جاکر ان شہیدوں کو یاد کرتے تھے جنہوں نے ڈوگرہ راج کے دوران عام لوگوں پر کیے گئے ظلم و زیادتوں کے خلاف آوازیں بلند کر کے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا تھا۔