ہمارے وزیر اعظم جس فورم پر بھی تقریر کرتے ہیں لوگوں کا دل موہ لیتے ہیں اور لوگ ان کے ایک ایک لفظ پر امیدوں کے مینارے تعمیر کر لیتے ہیں لیکن لفظوں کا سحر جیسے ہی ختم ہوتا ہے آس کے سارے مینارے دھڑام کرکے زمیں بوس ہو جاتے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں کمی لائی جائے گی، گیس سارے پاکستانیوں کو فری میسر ہوگی، پٹرول کوڑیوں کے مول کر دیا جائے گا، کھانے پینے کی اشیا حکومت کی جانب سے مفت تقسیم ہوںگی، بچوں کی تعلیم حکومت کی ذمے داری ہوگی، کوئی گھر کے بغیر نہیں رہے گا، نوکریاں تو ایسے بانٹی جا رہی ہوںگی جیسے اللہ نے ہوا اور پانی مہیا کیا ہوا ہے اور اسی قسم کی کتنی ہی من موہ لینے والی تقاریر ایسی ہیں جن کو سن کر پاکستان کے عوام پہلے تو سر دھنا کرتے تھے لیکن اب عالم یہ ہے کہ سارے کے سارے اپنا اپنا سر پیٹتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے وزیر اعظم نے ’’ہنرمند پاکستان‘‘ پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’دوسروں کی لڑائیاں لڑنا بڑی غلطی تھی اب پاکستان کبھی کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا، ہماری پوری کوشش ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں دوستی ہو جائے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کہہ دیا ہے کہ ہم واشنگٹن اور تہران کو بھی قریب لائیں گے، پاکستان دنیا میں امن کا داعی بنے گا، نوجوان ملک کا بڑا اثاثہ ہیں، ہم ان کو طاقت دیں گے تو یہ پاکستان کو اٹھا سکتے ہیں‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے دوسروں کی لڑائی میں شامل ہوکر بڑی سخت غلطی کی تھی لیکن یہ غلطی ’’تھی‘‘ کب سے ہو گئی۔ لڑائی تو مسلسل جاری ہے اور پاکستان تاحال اس سے باہر آنے میں سخت ناکام ہے۔ پاکستان تا حال امریکی پالیسی سے اپنے آپ کو باہر نکالنے میں سخت ناکام ہے۔ ہر وہ ملک جو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے دوسرے ممالک کا دست نگر ہو وہ اپنے ’’محسنوں‘‘ کی مرضی و منشا کے خلاف کیونکر جا سکتا ہے جس کی حالیہ مثال ملائیشیا کانفرنس میں شرکت کے وعدے سے پھر جانا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ پاکستان کسی دوسرے ملک کی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا درست نہیں۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ ہم اس کوشش میں ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کی دوستی ہو جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں ممالک میں یہ دوریاں پیدا کس نے کی ہیں؟۔ جس ملک نے مسلمان ممالک کو پارے کی طرح پھاڑ کر رکھا ہوا ہے اسی ملک کی غلامی میں خود پاکستان شامل ہے۔ ہم خود غلام ہوںگے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ایک ایسا کام کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو ’’آقا‘‘ کے پسندیدہ مشغلے کے خلاف ہو۔ اب خود ہی سوچیں کہ جب ہم اپنی مرضی و منشا کے مطابق ملائیشیا تک نہ جاسکتے ہوں تو پھر واشنگٹن اور تہران کو ایک دوسرے سے قریب کیسے لا سکتے ہیں۔
فرماتے ہیں کہ پاکستان دنیا میں امن کا داعی بنے گا، بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے تھا لیکن پاکستان خود پاکستان کے اندر امن کا داعی بننے میں کامیاب نہیں ہو سکا تو وہ دنیا میں امن کا داعی کیسے بن سکتا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ نوجوان ملک کا بڑا اثاثہ ہیں، درست ہے لیکن کیا اس پر بھی غور کیا کہ یہی نوجوان جب علم و ہنر حاصل کرنے اور سیکھنے کے بعد عمل کے میدان میں اترنے کے قابل ہوتے ہیں تو ان کو اس میدان میں میٹرک پاس لوگوں بیٹھے ہوئے نظر آ رہے ہوتے ہیں اور اگر کوئی نوجوان سوال اٹھائے کہ ایسا کیوں تو جواب دیا جاتا ہے کہ ان کی ’’انگریزی‘‘ بہت اچھی ہے۔ جب ایک جانب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع ہی بہت محدود ہوں اور دوسری جانب ان سیٹوں پر وہ لوگ متمکن ہوں جو زیورعلم کے بجائے ’’پرچیوں‘‘ اور اچھی ’’انگریزی‘‘ بولنے کی بنیاد پر بیٹھے ہوں تو خان صاحب پھر ملک کا نوجوان اور ہنر مند کہاں جاکر اپنا سر پھوڑے۔
موجودہ حکومت کا یہ اعلان تھا کہ وہ جو کام بھی کرے گی اور جو بھرتیاں بھی عمل میں لائے گی اس کی بنیاد میرٹ یعنی قابلیت ہوگی لیکن کیا پاکستان میں ایسا ہی ہو رہا ہے؟۔ یہ ہے وہ سوال جو ہر عام و خاص کی زبان پر ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جب پاکستان میں وزیر تعلیم کے لیے تعلیم یافتہ ہونا ہی شرط نہ ہو بلکہ معیار فرفر انگریزی بولنا قرار پائے تو پھر بیس بیس بائیس بائیس سال کسی بھی قسم کی تعلیم اور ہنر سیکھنے کے بجائے ہر نوجوان صرف انگریزی میں عبور کیوں نہ حاصل کرے۔
وزیر اعظم کی تقریر بلاشبہ بہت پْر اثر اور دل موہ لینے والی تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ ’’حکومت نوکریوں کے لیے فضا پیدا کر سکتی ہے، آئندہ 4 برس میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر بھی کرنی ہے، قوموں کی زندگی میں برا وقت آتا ہے تاکہ اپنی اصلاح کی جائے، پاکستان مشکل وقت سے نکل رہا ہے اور استحکام کی جانب گامزن ہے، ریاست دو چیزوں پر کھڑی ہوتی ہے، ایک انصاف اور دوسرا سادگی‘‘۔ سچی بات یہ ہے کہ حکومت کا کام ’’کر گزرنا‘‘ ہوتا ہے کرسکتی ہے، کہنا نہیں اور رہا 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا دعویٰ تو اب اس کے لیے باقی 42 ماہ بچے ہیں۔ 50 لاکھ کو 42 ماہ سے تقسیم کرکے آپ خود ہی حساب لگالیں کہ کیا ہر ماہ اتنے مکانات تعمیر کرنا حکومت کے بس میں ہے؟۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ قوموں کی زندگی میں برا وقت آتا ہے لیکن دو چیزیں پاکستان میں ایسی ہیں جن سے پاکستان کو آج تک چھٹکارہ نہیں مل سکا ہے ایک ہنگامی صورت حال اور دوسری برا وقت۔ آپ ان ہی دو آفتوں سے پاکستانیوں کو نجات دلانے کے دعوے کے ساتھ آئے تھے نہ کہ ان کا تذکرہ کرنے کے لیے۔ اب رہی بات انصاف کی فراہمی اور سادگی کی تو اس کا اگر از خود جائزہ لے لیا جائے تو کتنا اچھا ہو۔رہی سادگی کی بات تو نہ تو وزیر اعظم ہاؤس، ایوان صدر، وزرائے اعلی کی رہائش گاہیں اور نہ ہی گورنر ہاؤس یونیورسٹی، کالجوں اور تفریح گاہوں میں تبدیل ہو سکے ہیں اور نہ ہی ان کے عملے اور اخراجات میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے حتیٰ کہ ان کے پروٹوکول میں بھی کسی قسم کی کوئی کمی نظر نہیں آئی۔ تقریر ایک فن ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے وزیر اعظم اس فن میں طاق ہیں۔ وہ جب بھی اور جہاں بھی تقریر فرماتے ہیں لوگوں کا لہو گرما کر رکھ دیتے ہیں اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے سابقین ہی کیا قائد اعظم محمد علی جناح کی طرح پرچیوں کا استعمال نہیں کیا کرتے بلکہ جو بھی کہتے ہیں بلا تامل اور برملا کہہ دیتے ہیں اسی لیے بہت ساری باتیں وہ ایسی بھی کہہ جاتے ہیں جو شاید وہ کہنا بھی نہ چاہتے ہوں۔ جرمنی اور جاپان کی سرحدوں کا ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہونا، درختوں کا رات کے وقت آکسیجن کا اخراج، سال کے بارہ موسم اور فلاں پیغمبر کا قرآن میں تذکرہ ہی نہ ہونا وغیرہ۔ اسی طرح ہنرمند پاکستان میں سارے انسانوں کو ایک بات یاد کرانا اپنا فرض سمجھتے ہوئے یہ کہہ دینا کہ دنیا تو کانٹوں کی سیج ہے، یہاں مصائب اور آلام کے علاوہ اور کچھ نہیں اگر حقیقی سکون درکار ہے تو وہ انسان کو مر کر ہی نصیب ہو سکتا ہے لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ اگر ’’مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے‘‘ والی بات ہو گئی تو پھر کیا ہوگا؟۔ ہم عوام ان کی ساری تقریروں، دعوں اور وعدوں کے متعلق صرف اتنا ہی عرض کر سکتے ہیں کہ
اقبال بڑا اُپدیشک ہے‘ من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا‘ کردار کا غازی بن نہ سکا