تاریخ کو ’’سیکولرائز‘‘ کرنے کا مطالبہ

564

 معروف سوشلسٹ دانشور ڈاکٹر مبارک نے کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تاریخ بالخصوص پاکستان کی تاریخ کو مشرف بہ سیکولرازم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے آغاز ہی سے تاریخ آزاد نہیں ہے مگر اب اسے آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’صداقت‘‘ تک پہنچنے اور اسے بیان کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تاریخ کو ’’سیکولرائز‘‘ کردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ کے سلسلے میں ایک بیانیہ حکمرانوں کا ہے لیکن ایک ’’متبادل بیانیہ بھی ہوتا ہے۔ چناں چہ ہمیں ہمیشہ ’’متبادل بیانیے‘‘ کو مضبوط کرنا چاہیے۔ ہمیں ہمیشہ عوام کے ساتھ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں تاریخ کو کالم نگاروں، ناول نویسوں اور شاعروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ تاریخ کو ’’پیشہ ور مورخوں‘‘ کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں تاریخ کو اوپر سے نیچے کے اسلوب میں لکھنے کے بجائے نیچے سے اوپر کے اسلوب میں لکھنا چاہیے۔ یعنی ہمیں ’’تاریخ‘‘ لکھتے ہوئے حکمرانوں سے عوام کی طرف نہیں بلکہ عوام سے حکمرانوں کی طرف جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں عوام، خانہ بدوشوں، دیہاتیوں یہاں تک کہ چوروں اور ڈاکوئوں کی بھی تاریخ لکھنی چاہیے کیوں کہ ان لوگوں کو تاریخ لکھتے ہوئے تاریخ کے دائرے سے باہر کھڑا کردیا جاتا ہے۔
(روزنامہ ڈان کراچی۔ 28 دسمبر 2019ء)
ہم نے ایک بار انہی کالموں میں ڈاکٹر مبارک کو ’’مزاحیہ مورخ‘‘ قرار دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب تاریخ لکھتے ہوئے ہی نہیں تاریخ پر گفتگو کرتے ہوئے بھی سامعین کو بہت ہنساتے ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو ڈاکٹر صاحب کے زیر بحث خیالات میں بھی ہنسنے ہنسانے کے کئی پہلو موجود ہیں۔ ڈاکٹر صاحب چوں کہ ایک سوشلسٹ مورخ ہیں اس لیے وہ تاریخ کو ’’مذہبی تناظر‘‘ میں دیکھنے اور بیان کرنے کے سخت خلاف ہیں۔ لیکن اب انہوں نے تاریخ کو مشرف بہ سیکولرازم کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر ’’مذہب‘‘ ایک ’’عقیدہ‘‘ ہے تو سیکولرازم بھی ایک ’’عقیدہ‘‘ ہے۔ چناں چہ ’’مذہبی تناظر‘‘ اگر تاریخ کو ’’مسخ‘‘ کرتا ہوگا تو ’’سیکولر تناظر‘‘ بھی تاریخ کو مسخ کرے گا۔ اس اعتبار سے ہماری ’’علمی پوزیشن‘‘ یہ ہونی چاہیے کہ تاریخ کو ’’مذہبی تناظر‘‘ میں لکھا جانا چاہیے نہ ’’سیکولر تناظر‘‘ میں۔ مگر ڈاکٹر مبارک کی ’’ایمانداری‘‘ کا یہ عالم ہے کہ ’’مذہبی عقیدہ‘‘ تو انہیں زہر لگتا ہے مگر ’’سیکولر عقیدہ‘‘ انہیں دل سے عزیز ہے۔ اسی لیے ہمیں ڈاکٹر مبارک ہمیشہ سے ایک ’’مزاحیہ فنکار‘‘ یا ’’مزاحیہ مورخ‘‘ دکھائی دیتے ہیں۔ آپ چاہیں تو اس حوالے سے انہیں مورخوں کا ’’عمر شریف‘‘ کہہ سکتے ہیں۔
سوشلزم ایک سیکولر نظریہ تھا اور سوشلزم نے جتنے ’’ایماندار‘‘ مورخین پیدا کیے ہیں وہ ہمیں معلوم ہے۔ سوویت یونین سوشلسٹوں کا ویٹی کن سٹی تھا۔ اس ویٹی کن سٹی میں کسی بھی مذہب کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ سوویت یونین میں لکھا جانے والا ادب صرف ادب نہیں تھا ’’سوشلسٹ ادب‘‘ تھا۔ معاشیات صرف معاشیات نہیں تھی ’’سوشلسٹ معاشیات‘‘ تھی۔ تاریخ صرف تاریخ نہیں تھی ’’سوشلسٹ تاریخ‘‘ تھی۔ یہاں تک تو سوویت یونین کی سائنس بھی صرف سائنس نہیں تھی ’’سوویت سائنس‘‘ تھی۔ ایسی ریاست اور ایسے معاشرے میں جتنی ’’ایماندارانہ تاریخ‘‘ لکھی جاسکتی ہے وہ ظاہر ہے۔ سوویت یونین کے ’’سیکولر مورخ‘‘ اگر ’’صداقت‘‘ کو پہچاننے کی صلاحیت کے حامل ہوتے تو انہیں 1940ء ہی میں معلوم ہوگیا ہوتا کہ 1992ء میں سوویت یونین منہدم ہونے والا ہے، مگر چوں کہ ان کی آنکھوں پر سیکولرازم کا چشمہ لگا ہوا تھا اس لیے انہیں سوویت یونین کے منہدم ہونے سے ایک ماہ قبل بھی معلوم نہ ہوسکا کہ سوویت یونین مرنے والا ہے۔ اس کے برعکس مذہبی شعور اور مذہبی مورخ کا ’’Vision‘‘ کیا ہوتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ مولانا مودودی نے 1946ء میں کہہ دیا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب مارکسزم کو سوویت یونین کے دارالحکومت ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی۔ اسی طرح مولانا نے 1969ء میں بتادیا تھا کہ حالات یہی رہے تو پاکستان کو متحد نہیں رکھا جاسکے گا۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ تاریخ لکھنے کا کام مذہبی شعور کو کرنا چاہیے یا سیکولر شعور کو؟
ڈاکٹر مبارک کا اصرار ہے کہ سیکولر تناظر ’’صداقت‘‘ تک پہنچنے کا بہترین طریقہ ہے۔ یہ بھی ایک ’’مزاحیہ علمی دعویٰ‘‘ ہے۔ اس لیے کہ سیکولر ازم کی صداقت بھی موضوعی یا Subjective ہے اور سیکولر ازم کا تناظر بھی موضوعی یا Subjective ہے۔ اس بات کو ایک ٹھوس مثال سے سمجھ لیجیے۔ جدید مغربی فلسفہ سیکولر فکر کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ مگر اس فلسفے کے تضادات کا یہ عالم ہے کہ حقیقت یا Reality کی کسی ایک تعریف پر متفق ہی نہیں۔ ڈیکارٹ نے کہا تھا میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں۔ یعنی ڈیکارٹ کے نزدیک انسان اپنے ذہن یا فکر کی وجہ سے انسان ہے۔ نٹشے نے صاف کہا ہے کہ انسان کو اپنی زمین اور جبلتوں کے ساتھ وفادار رہنا چاہیے۔ مارکس نے کہا انسان معاشی حقیقت ہے اور اس کے تمام رشتے معاشی یا پیداواری ہیں۔ مابعد جدیدیت یا Post modernismکا فلسفہ کہہ رہا ہے کہ حقیقت کا زبان سے باہر کوئی وجود ہی نہیں جو کچھ ہے زبان میں ہے اور زبان کوئی معروضی یا Objective چیز نہیں۔ چناں چہ Post modernism کے امام دریدا نے کہا ہے کہ لفظ کے معنی متعین نہیں وہ دائمی استواء کا شکار ہیں۔ پچیس تیس سال پہلے مغرب کے متاز فلسفی اسپینڈر کے چند فقرے پڑھے تھے۔ یہ وہی اسپینڈر ہے جس کے ایک فقرے سے اقبال نے یہ شعر نکالا:
جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اسپینڈر کے فقرے یہ تھے:
“you can show people that they are bored, that what they have in the civilization is not life but a kind of death-in-life. Baudelare says! read, you are bored. Lawrence! you have denied and frustrated your instinctive life.Eliot you are dead”
ترجمہ:۔ آپ لوگوں کو دکھا سکتے ہیں کہ وہ بور ہوچکے ہیں اور یہ کہ اس تہذیب میں انہیں زندگی نہیں موت جیسی زندگی میسر ہے۔ بولڈیر اپنے قاری سے کہتا ہے: تم بور ہوچکے ہو۔ لارنس اپنے قاری سے کہتا ہے تم نے اپنی جبلی زندگی کا انکار کردیا ہے اور تم محرومی کا شکار ہو۔ ایلیٹ اپنے قاری سے کہتا ہے: تم مرچکے ہو۔
سوال یہ ہے کہ جس تہذیب میں اتنی موضوعیت یا Subjectivity ہو وہاں کوئی مورخ معروضی صداقت یا Objective Truth کی تلاش کا کام کیسے کرسکتا ہے؟
اس کے برعکس مذاہب عالم کی تاریخ کی معروضیت یا Objectivity کا معاملہ یہ ہے کہ ایک لاکھ 24 ہزار انبیا نے حقیقت کے بارے میں ایک ہی بات کہی۔ سب نے کہا خدا ایک ہے۔ سب نے کہا ہم اللہ کے رسول اور اس کا پیغام پہنچانے والے ہیں۔ سب نے کہا انسان کا شرف یہ ہے کہ وہ اللہ کا بندہ بنے۔ سب نے کہا انسان میں روح ہوتی ہے۔ سب نے کہا آخرت ضرور واقع ہوگی۔ سب نے کہا اللہ نے کچھ چیزوں کو حلال اور کچھ کو حرام قرار دیا ہے۔ سب نے کہا فرشتوں اور جنات کا وجود ہے۔ سب نے کہا جنت اور دوزخ وجود رکھتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مذاہب کے دائرے میں ’’صداقت‘‘ اور ’’حقیقت‘‘ کا تصور ہمیشہ ایک رہا ہے۔ چناں چہ مذہبی تناظر ہی حقیقی معنوں میں ’’سچی تاریخ‘‘ رقم کراسکتا ہے۔ جو فکر معروضی ہو وہی معروضی تاریخ لکھوا سکتی ہے۔
بدقسمتی سے چوں کہ ڈاکٹر مبارک ایک مزاحیہ مورخ ہیں اس لیے وہ تاریخ کو بھی Democratize کردیتے ہیں یعنی وہ تاریخ کو بھی جمہوری یا عوامی بنادیتے ہیں۔ حالاں کہ تاریخ خواص یا خواص الخواص بناتے ہیں ’’عوام‘‘ نہیں۔ تمام مذاہب کی تاریخ انبیا کی تاریخ ہے۔ اسلامی تاریخ ایک سطح پر رسول اکرمؐ کی پیدا کردہ تاریخ ہے۔ دوسری سطح پر وہ سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ کی تاریخ ہے۔ ایک اور سطح پر تاریخ بادشاہوں کی تاریخ ہے۔ ایک اور سطح پر تاریخ صوفیا اور علما کی تاریخ ہے۔ اس سے بھی نجی سطح پر تاریخ سیاسی رہنمائوں کی تاریخ ہے۔ سوشلزم کی تاریخ اپنی اصل میں مارکس کی تاریخ ہے، لینن کی تاریخ ہے، مائو کی تاریخ ہے، مارکس لینن اور مائو نہ ہوتے تو روس اور چین کے عوام انقلاب کا ’’خواب‘‘ بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ قائد اعظم کے بغیر پاکستان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گاندھی اور نہرو نہ ہوتے تو ’’جدید ہندوستان‘‘ بھی نہ ہوتا۔
جدید مغربی فکر کی پوری تاریخ خواص اور خواص الخواص کی تاریخ ہے، یہ تھیلزکی تاریخ ہے، فیثا غورث کی تاریخ ہے، ارسطو کی تاریخ ہے، ڈیکارٹ کی تاریخ ہے، ہیگل کی تاریخ ہے، کانـٹ کی تاریخ ہے، نٹشے کی تاریخ ہے، ان میں سے کوئی بھی ’’عام آدمی‘‘ نہیں تھا۔ پوری انسانیت کی ثقافتی تاریخ ہے، اردو ادب کی تاریخ میر غالب اقبال کی تاریخ ہے اور میر غالب اور اقبال عام آدمی نہیں تھے۔
بلاشبہ تاریخ میں عوام اور ان کی سیاسی، سماجی، علمی، تہذیبی، اخلاقی اور معاشی زندگی کا احوال بھی موجود ہونا چاہیے۔ عوام بہرحال تاریخ کا ’’حصہ‘‘ ہوتے ہیں، تاریخ ’’خلق‘‘ کرنے والے نہیں ہوتے، تاریخ کو یا تو ’’مہا تاریخ‘‘ یا Meta History تخلیق کرتی ہے یا خواص الخواص اور خواص۔
ڈاکٹر مبارک نے یہ بھی فرمایا ہے کے ایک ’’حکمرانوں کا بیانیہ‘‘ ہوتا ہے اور اس کے مقابلے پر ایک ’’متبادل بیانیہ‘‘ بھی ہونا چاہیے۔ ہم اس بات سے مکمل طور پر اتفاق کرتے ہیں۔ کسی معاشرے اور کسی ریاست کو حکمرانوں کے بیانیے کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ مگر بدقسمتی سے سیکولر اور سوشلسٹ عناصر ’’متبادل بیانیے‘‘ کو بھی صرف اس صورت میں پسند کرتے ہیں جب وہ مذہب بالخصوص اسلام کے خلاف ہو۔ اگر اسلام کہیں خود متبادل بیانیہ بن کر اُبھر آتا ہے تو سیکولر اور سوشلسٹ اس کا بہت بُرا مانتے ہیں۔ اس کی ایک بہت ہی بڑی مثال امام غزالی اور مولانا مودودی کا بیانیہ ہے۔ غزالی کے زمانے میں یونانی فلسفے کے مذہب دشمن تصور عام ہوگئے تھے اور یہی تصورات بعض مسلم حکمرانوں نے بھی قبول کرلیے تھے۔ غزالی نے یونانی فلسفے کے بیانیے کے جواب میں اسلام کا بیانیہ تخلیق کیا اور آج ہر سیکولر دانشور امام غزالی کو یہ کہہ کر بُرا بھلا کہتا ہے کہ انہوں نے مسلم دنیا میں فلسفے کا بیج مار دیا۔ مولانا مودودی نے بھی بیسویں صدی میں سوشلزم اور جدید مغربی تہذیب کے مقابلے پر ’’متبادل بیانیہ‘‘ تخلیق کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جدید مغربی فکر اور سوشلزم کے تمام علمبردار پنجے جھاڑ کر مولانا کے پیچھے پڑ گئے۔
خدا کا شکر ہے کہ ڈاکٹر مبارک نے تاریخ نویسی کے سلسلے میں ’’اتھارٹی‘‘ کے تصور کو تسلیم کرلیا اور فرمایا کہ تاریخ کو کالم نویسوں، ناول نگاروں اور شاعروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ہمیں اُمید ہے کہ اب ڈاکٹر مبارک اور ان کے پرستار اسلامی معاشرے اور مذہب کے سلسلے میں علما کی اتھارٹی کو بھی قبول کرلیں گے اس لیے کہ اسلامی معاشرے اور مذہب کو سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ لفنگوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔