کوئٹہ میں ایک اور سانحہ

319

گزشتہ جمعہ کو کوئٹہ میں ایک بار پھر دہشت گرد اپنا وار کرگئے۔ سیٹلائٹ ٹائون کی مسجد میں دھماکا ہوا جس میں امام مسجد اور ڈی ایس پی سمیت 15 افراد شہید اور 40زخمی ہوگئے۔ اب تک کی پولیس تحقیقات کے مطابق یہ خودکش حملہ تھا اور حملہ آور نماز مغرب میں دوسری صف میں کھڑا تھا۔ پاک فوج کے سالار نے بالکل صحیح کہا کہ مسجد میں بے گنا ہوں کو نشانہ بنانے والے سچے مسلمان نہیں ہوسکتے۔ سچے مسلمان کیا، ایسے لوگ تو انسان کہلانے کے مستحق بھی نہیں اور مسجد ہی نہیں کہیں بھی بے گناہوں کو قتل کرنا بدترین گناہ ہے۔ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ لیکن یہ کیسے سفاک لوگ ہیں جن سے مسجد بھی محفوظ نہیں جو اللہ کا گھر ہیں۔ شہید ہونے والوں میں ڈی ایس پی امان اللہ بھی شامل ہیں جن کا بیٹا پچھلے ماہ شہید ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے مکروہ جرائم کے ذمے دار کون ہیں؟ ابھی تک کسی نے اس کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے البتہ تحریک طالبان نے اس واقعہ سے برأت کا اعلان کیا ہے۔ بلوچستان کا علاقہ بہت حساس ہے اور کئی غیر ملکی طاقتیں یہاں بدامنی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو نے بھی بلوچستان میں تخریب کاری کا جال پھیلا رکھا تھا او ر وہ ایرانی علاقے چاہ بہار سے اپنا نیٹ ورک چلا رہا تھا۔ پڑوسی ملک ایران کی اس سے بے خبری تعجب خیز ہے۔ بھارت کے علاوہ امریکا کے اپنے مفادات بھی اس خطے سے وابستہ ہیں۔ وہ نہیں چاہتا کہ گوادر کی بندرگاہ فعال ہو اور سی پیک کا منصوبہ کامیاب ہو۔ امریکا چین کے بڑھتے ہوئے اثرات سے خوف زدہ ہے جو ایک بڑی طاقت بن چکا ہے۔ چین کو نیچا دکھانے کے لیے بھی امریکی ایجنٹ بلوچستان کو غیر محفوظ خطہ ثابت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس پر مستزاد خود بلوچستان میں ایسے گروہ ہیں جو اپنی ناراضی کا اظہار دہشت گردی اور تخریب کاری کے ذریعے کرتے ہیں۔ اہل بلوچستان کی محرومیاں اپنی جگہ جن کا سلسلہ بہت پرانا ہے لیکن اپنی محرومیوں اور ناراضی کا بدلہ بے گناہ افراد سے لینا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ بلوچوں کے حقوق کے دعویداروں کے ہاتھوں خود بلوچ عوام کا خون بہہ رہا ہے جن کا کوئی قصور نہیں۔ سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں فوجی چڑھائی کروائی، متعدد افراد پہاڑوں پر چڑھ گئے یا افغانستان چلے گئے۔ کئی بلوچ رہنما اور ان کی اولاد قتل کردی گئی۔ جنرل پرویز مشرف نے بلوچ سردار اکبر بگٹی کو ہلاک کر کے ایک نیا محاذ کھول دیا۔ انہوں نے دھمکی دی تھی کہ اختلاف کرنے والوں کو ایسی جگہ سے میزائل ہٹ کرے گا کہ انہیں پتا بھی نہیں چلے گا۔ اس کا تجربہ انہوں نے سردار اکبر بگٹی پر کیا اور اب ان کی اولاد بدلہ لینے پر تلی ہوئی ہے۔ بلوچستان کے عوام کو بجا طور پر محرومیوں کا شکوہ ہے۔ سوئی سے نکلنے والی گیس سے خود بلوچستان کے لوگ محروم ہیں۔ صحت کی سہولت اور صاف پانی سے محرومی ایک عمومی مسئلہ ہے۔ غم و غصے اور محرومیوں کے شکار افراد بڑی آسانی سے دشمن کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ تخریب کاروں کو خام مال مقامی سطح ہی سے دستیاب ہوتا ہے۔ خود کش حملہ روکنا ترقی یافتہ ممالک کے بس کا بھی نہیں تاہم انٹیلی جنس ایجنسیاں کوئی وقوعہ ہونے سے پہلے ہی سراغ لگا کر قلع قمع کرتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسی کئی کامیاب کوششیں ہوئی ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو واردات نماز مغرب میں ہوئی ہے لیکن تخریب کار ایسی کارروائی نماز جمعہ میں کرتے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ انہیں نماز جمعہ میں موقع نہیں مل سکا ورنہ شاید ہلاکتیں زیادہ ہوتیں۔