نا اہلی کا الزام عوام پر

287

وزیراعظم عمران خان کے غیر ملکی مشیر تجارت سرمایہ کاری ٹیکسٹائل صنعت و پیداوار عبدالرزاق دائود نے پاکستانی قوم کو طعنہ دیا ہے کہ ان میں نہ ہی عالمی وژن ہے نہ صبر کاروباری طبقہ مہنگائی کررہا ہے اسے چاہیے کہ ہاتھ تھوڑا ہلکا رکھے۔ عبدالرزاق دائود پاکستانی عوام پر ایسا برسے ہیں جیسے ابھی امریکا سے آئے ہیں اور پاکستانیوں کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ برہم اس قدر ہیں کہ فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ حکومت نے برآمدات بڑھا کر کون سا تیر مار لیا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی قوم کو ٹیکس چور قرار دیتے ہیں ان کے مشیر تجارت نے تو عوام کو نا سمجھی کی سند سے نواز دیا۔ وزیراعظم کی ٹیم کے دیگر افراد بھی عوام ہی کو جاہل اور بے وقوف قرار دیتے ہیں بلکہ سمجھتے بھی ہیں۔ پوری تاجربرادری چیخ چیخ کر بتارہی ہے کہ صنعتوں کو گیس اور بجلی کی فراہمی بند کرنے کا نقصان براہ راست معیشت پر پڑتا ہے۔ لیکن وزرا اور مشیران کو سمجھ میں نہیں آرہا۔ اسی طرح ڈالر کی اڑان، پیٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں اور گیس کے نرخوں میں بے تحاشا اضافہ کیا تاجروں نے کیا ہے یہ سارے کام تو حکومت کرتی ہے کیا تاجروں نے کہا تھا کہ آٔی ایم ایف جاکر اس سے قرضہ لے لو۔ جب حکومت آئی ایم ایف سے قرضے لے گی تو اسے اس کی شرائط ماننا پڑیںگی مشیر تجارت کو یہ ہمت کیسے ہوئی کہ حکومت کے فیصلوں سے ہونے والے نقصان کا ذمے دار تاجر برادری کو قرار دے رہے ہیں۔ جس طرح ایف بی آر تاجروں کی گردن پکڑ کر بیٹھا ہے اور ٹیکس کے نام پر خون نچوڑ رہا ہے اس کا نتیجہ مہنگائی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ وزیر تجارت فرمارہے ہیں کہ کوئی شک نہیں ہے کہ سردیوں میں گیس کا مسئلہ ہوا ہے پنجاب میں صنعتوں کو گیس ملنا شروع ہوگئی سندھ میں بھی ملنے لگے گی۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ سردیوں میں گیس کا مسئلہ ہوتا ہے لیکن یہ کون بتائے گا کہ سردیوں سے پہلے گیس کا مسئلہ کیوں ہوا تھا اور اب جبکہ پورے ملک خصوصاً سندھ میں سردی پہلے سے بھی زیادہ ہے تو گیس کیسے ملنا شروع ہوگئی۔ اس اصول کی بنیاد پر تو گیس کا سارا بحران مصنوعی ثابت ہوجاتا ہے مشیر تجارت وہ خوشنما وعدے بھی دہرارہے ہیں جو اکثر ہمارے حکمران دہراتے رہتے ہیں کہ آئندہ بجٹ میں سونے چاندی کے ڈھیر لگا دیے جائیں گے۔ عبدالرزاق داود بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ نئے بجٹ میں صنعتی پیداوار کی لاگت میں کمی کا واضح اعلان کیا جائے گا۔ لیکن مشیر تجارت صاحب بتائیں حکومتیں اعلانات ہی تو کرتی ہیں ایک اعلان کرپشن کے خاتمے کا ہے جو ختم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہے۔ ایک اعلان ریاست مدینہ بنانے کا ہے جو بن ہی نہیں پارہی سود میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور جھوٹ میں بھی۔ ریاست مدینہ میں ان دونوں چیزوں کا کوئی گزر نہ تھا۔ وہ یہ کہتے ہوئے کیوں گھبرا گئے کہ صنعتی پیداوار کی لاگت کو کم کردیںگے۔ اعلان سے تو کوئی کام پہلے ہوا ہے نہ ہوگا۔ وزیراعظم کے مشیر کا انداز گفتگو نہایت غلط ہے ان کو اپنے بیان پر معذرت کرنا چاہیے کیا وہ ایسا کہہ سکتے ہیں کہ وزیراعظم کا کوئی وژن ہے نہ صبر۔ کیونکہ جو شخص کٹوں، مرغی، انڈوں کی بنیاد پر معیشت مستحکم کرنے کی بات کررہا ہو اس کے وژن پر تو یہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے اور عوام کو عالمی وژن کی ضرورت بھی کہاں عوام تو صرف اپنی روز مرہ زندگی کے لیے محنت کرتے ہیں۔ تاجروں کو ٹیکس چور کہنے والوں کے وژن پر بھی مشیر تجارت یہی تبصرہ کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ یہ تو ایک سویلین کی طرف سے غریب سویلین کو بلڈی سویلین کا طعنہ دینے کے مترادف ہے۔ پھر وہ طعنہ پاک فوج سے کیوں نہ لیا جائے یہ غیر ملکی کون ہوتے ہیں پاکستانی عوام کو وژن سے عاری قرار دینے والے یہ غیر ملکی اس معنی میں ہیں کہ خود کو پاکستانی عوام سے بالا سمجھ رہے ہیں اور انداز گفتگو ایسا ہے جیسے کوئی امریکن یہ بات کہہ رہا ہو۔ حکومت نے ملک کی برآمدات کا بیڑہ غرق کیا درآمدات میں کمی اس لیے ہوگئی کہ عوام کی قوت خرید کم ہوچکی ہے۔ اس طرح تو قرض ادائیگی کچھ بہتر ہوا ہے۔ باقی قرضوں کی رقم سے جو زر مبادلہ کے ذخائر کو بہتر ظاہر کررہی ہے۔ چند روز میں قرضوں کی اقساط ادا کرنے کے بعد یہ ذخائر بھی کم ہوجائیںگے۔ مشیر تجارت تاجروں کو الزام دینے کے بجائے حکومتی اقدامات کی اصلاح کریں ایف بی آر کو شتر بے مہار نہ بنائیں بلکہ ٹیکس دینے والوں کا احترام کریں۔ چلیں جو ٹیکس نہیں ملا اس پر تو کوئی تبصرہ کیا جاسکتا ہے لیکن ملک کا 70 فیصد سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے شہر کی صنعتوں کے لیے وفاقی حکومت کا کیا وژن ہے۔ اس حوالے سے عالمی وژن بہت ضروری ہے کیونکہ ساری دنیا میں ٹیکس دینے والے کو قیمتی سمجھا جاتا ہے مزید ٹیکس دینے کے لیے رعایتیں اور آسانیاں دی جاتی ہیں۔ حکومت کیا دے رہی ہے عبدالرزاق دائود کچھ بتا سکتے ہیں۔ ان کا وژن کیا کہتا ہے۔