قونصل جنرل ، ایران
جنرل سلیمانی جو اسلامی جمہوریہ ایران کے سرکاری عہدیدار کی حیثیت سے اور عراقی حکومت کی دعوت پر اس ملک کے سفر پر تھے، جمعہ 3جنوری کو ایک غیرقانونی اور بزدلانہ امریکی ڈرون حملے میں جو صدر ٹرمپ کے بلاواسطہ حکم سے کیا گیا مارے گئے ۔ اس تلخ سانحے کے چند روز بعد اس دہشت گردانہ فعل کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور خطے کے تمام ممالک کے مفادات کے لیے خطرے کی رو سے تجزیہ کرنا چاہیے۔ خطے کے اکثر ممالک حتیٰ کہ یورپی ممالک کے رہنما بھی اس بات پر متفق ہیں کہ جنرل سلیمانی کا دہشت گرد اور تکفیری گروہوں سے لڑائی میں انتہائی اہم کردار تھا۔ عراق کی شہر بغداد اور اربیل کو شکست سے بچانا اور شام کو دہشت گرد گروہوں کے نرغے سے بچانا، ان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حاصل شدہ کامیابیوں میں سے صرف ایک کامیابی ہے۔ جنرل سلیمانی کی دہشت گردی کے خلاف خاص کر داعش سے لڑائی متعلقہ ممالک کی دعوت اور سیکورٹی کونسل کی قراردادوں بالخصوص قرارداد نمبر ۲۲۴۹ کے مطابق تھی۔ یہ پہلو نہ صرف اسلامی جمہوریہ ایران کے عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے لازمی قراردادوں پر پابند ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ امریکیوں کی جانب سے دوسرے ممالک کی بے قدری اور اس ملک کی دہشت گردی کیخلاف جنگ اور عالمی قوانین کی پاسداری پر ریاکارانہ پالیسی کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔
دہشت گردی کیخلاف جنرل سلیمانی کی قانونی کارروائی نے ٹرمپ حکومت کے جھوٹے پروپیگنڈوں کے باوجود انہیں ایران اور باقی تمام ممالک کے عوام میں ہیرو بنادیا۔ امریکی حملے میں شہید ہونے والوں کی عراق کے مختلف شہروں میں تشیع جنازہ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی شرکت نیز ایران کے مختلف شہروں اور تہران کے لاکھوں لوگوں کا جنرل سلیمانی کو وداع کرنا اور پاکستان کے مختلف شہروں جیسے کہ کراچی میں احتجاجی مظاہروں کا انعقاد، عوام میں بھرپور پزیرائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ٹرمپ حکومت کو کبھی بھی اس حد تک پزیرائی برداشت نہ تھی لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ جنرل سلیمانی کی پزیرائی اور تاثیر، بہت ہی زیادہ ہے۔ امریکا کا عراق جیسے خودمختار ملک میں ایران کے سرکاری عہدیدار کی ٹارگٹ کلنگ عراق کی قومی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ٹرمپ سرکار نے اس خطرناک فعل سے دنیا کو ایک بار پھر باور کرادیا کہ یہ ایک خود پسند حکومت ہے اور عالمی قوانین کو خاطر میں لائے بغیر واشنگٹن کی پالیسی کے مخالف ہر شخص کے قتل کو جائز سمجھتی ہے۔ اسلامی جمہوری ایران کئی بار ٹرمپ سرکار کی خودپسندی، غیرقانونی اور بدمعاشی پر مبنی پالیسی پر تشویش کا اظہار کرچکا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ یہ پالیسی ممکن ہے خطے کے تمام ممالک کے خلاف اپنائی جائے اور مستقبل میں صرف ایران کی حد تک نہ رہے۔
ٹرمپ سرکار کی دہشت گرد کارروائی ایک مشتعل کرنے والی اور اس کی اپنی انتخابی مہم کے خلاف تھی جس میں ختم نہ ہونے والی، مہنگی اور خونیں جنگوں کی مخالفت کی گئی تھی، یہ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ٹرمپ نہ صرف عالمی قوانین کا پابند نہیں بلکہ اپنی عوام سے کیے گئے وعدوں کو بھی روند ڈالتا ہے۔ ٹرمپ اپنی انتہائی دباؤ کی پالیسی جس میں جنگی کارروائی بھی شامل کی جا چکی ہے نہ صرف اسلامی جمہوریہ ایران کو امریکا کے غیرقانونی مطالبات منوانے پر ناکام ہوا ہے، بلکہ پورے خطے کو ایک جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے جو علاقے کے تمام ممالک کے مفادات کے لیے خطرہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران تحمل اور عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ بدامنی سے کوئی ملک محفوظ نہیں رہ سکتا، جنگ سے بھی کوئی ملک امن نہیں پا سکتا۔ اس حقیقت کے با وجود، ٹرمپ عالمی قوانین خاص کر اقوام متحدہ کے منشور اور خطے کے ممالک حتی کہ خود واشنگٹن کے اتحادی ممالک کے مفادات کی پروا کیے بغیر دھمکی پر اتر آیا ہے اور اپنے حالیہ گستاخانہ بیان میں کہا ہے کہ ایران کے ثقافتی اور تاریخی مقامات پر وار کرنا چاہتا ہے ۔ یہ ایک ایسا موقف ہے جو بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی نظر میں جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے۔ یہ سرکاری بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ٹرمپ اپنے ذاتی مفادات کے حصول خاص کر اگلے انتخابات میں ووٹ لینے کی غرض سے کسی بھی حد کو پار کرسکتا ہے۔ ان تمام دھمکیوں کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران ان گیدڑ بھبھکیوں سے نہیں ڈرتا اور یہ حق رکھتا ہے کہ عالمی حقوق بالخصوص اقوام متحدہ کے منشور کی شق ۵۱ کے تحت اکسانے والی دھمکیوں کے خلاف اپنے جائز دفاع کے حق کو استعمال کرے۔
اسلامی جمہوری ایران نے باور کرایا ہے کہ وہ کبھی بھی واشنگٹن کے عہدیدے داروں کی چال بازی، نکتہ چینی اور دھمکیوں میں آنے والا نہیں ہے اور اگر ٹرمپ سرکار نے مزید جنگ پر اکسانے والا رویہ اختیار کیا تو امریکا کو ضروری اور قانونی جواب دے گا۔ آخر میں، امید کرتا ہوں کہ خطے کے ممالک جلد ٹرمپ سرکار کے غیرقانونی رویوں کے خطرناک نتائج کا نوٹس لیں گے اور مشترکہ مفادات کی خلاف اس رویے کو ختم کرنے میں اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں گے۔ اسلامی جمہوریہ ایران آج بھی خطے کی کشیدگی ختم کرنے کی غرض سے کی جانے والی بات چیت اور پرامن راستوں کی حمایت کرتا ہے اور ہرمز امن پلان (HOPE) پر عملدرآمد کی لیے تہران مذاکرات فورم کا انعقاد، ایران کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔