’’بچوں کے ساتھ زیادتی‘‘

952

شبانہ ایاز
بچوں کے ساتھ زیادتی کے بعد ان کا بے دردی سے قتل کے واقعات روز مرہ کا معمول بن گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ دوچار روز شور وغل اور غم و غصہ ہوتا ہے۔ پھر لوگ چپ ہوجاتے ہیں۔ یا پھر کوئی نیا واقعہ ہوجاتا ہے۔ جنسی زیادتی بچوں کو سخت نقصان پہنچاتی ہے۔ جیسا کہ جسمانی زخم، ذہنی صدمہ۔ اس کی وجہ سے بچے زندگی کے ہر معاملے (اسکول، کالج، گھر اور شادی) میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ ایک بچہ اس وقت جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے جب اسے زبردستی جنسی حرکات میں حصہ لینے پر مجبور کیا جائے۔ یہ اکثر جسمانی اور کبھی آن لائن بھی ہوتا ہے۔ کمپیوٹر یا موبائل پر بات چیت، تصاویر یا وڈیوز کے تبادلے اور پھر جسمانی سرگرمیوں سے۔ پاکستان میں روزآنہ 11 بچے اس قسم کی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں اکثریت لڑکوں کی ہوتی ہے۔ اور کئی لڑکیاں بھی۔ جنسی زیادتی کرنے والے عموماً بالغ ہوتے ہیں۔ یہ خاندان کے لوگ، دوست یا اجنبی بھی ہوسکتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کہیں بھی ہوسکتی ہے۔ چاہے وہ گھر ہو یا گھر سے باہر۔ بچوں میں سمجھ بھی نہیں ہوتی۔ یا پھر جو کچھ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ اتنے خوف زدہ ہوجاتے ہیں کہ وہ اسے روک نہیں پاتے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں 2018 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 3832 واقعات رپورٹ ہوئے۔ جو رپورٹ نہیں ہوسکے یا انہیں دبا دیا گیا وہ بھی سیکٹروں میں ہوں گے۔ ان واقعات کے ملزمان کو سزا نہیں ہوئی بلکہ تمام نامزد افراد کو ضمانت پر رہا بھی کر دیا گیا۔
2019 کے پہلے پانچ ماہ کے واقعات جو میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئے، ان کی تعداد بھی سیکڑوں میں ہے۔ چند سال پہلے قصور میں سیکڑوں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز سامنے آئیں۔ لیکن افسوس کہ تمام تر قوانین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے واقعات میں ملوث کرداروں کو سخت سزانہ دی۔ اگرچہ ان واقعات میں چند ایک کی گرفتاری اور ہلکی سزا بھی ہوئی لیکن ایسے واقعات میں کمی نہ آسکی۔ زینب قتل کیس میں پوری قوم کھڑی ہوگئی تھی۔ مجرم عمران علی کو سزا بھی ہو گئی لیکن پھر بھی جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ حکومت کو صرف زینب قتل کیس ہی میں سزا نہیں دینی تھی بلکہ جتنے زیادتی واقعات ہو رہے ہیں ان سب میں سخت سزائیں دینی چاہیے تھیں۔ چارسدہ میں ایک 9 سالہ بچے سے جنسی زیادتی کا واقعہ ہوا۔ وہ بچہ عصر کی نماز سے پہلے کھیتوں میں مال مویشی کے لیے چارہ لینے گیا لیکن گھر واپس نہ آیا۔ ساری رات گھر والے ڈھونڈتے رہے، اگلی صبح کھیتوں میں بچے کی برہنہ لاش ملی جیسے زیادتی کے بعد پہلے پھانسی دی گئی پھر ذبح کر دیا گیا۔ ظالم بھیڑیے نہ صرف بچوں کو زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں بلکہ انتہائی بے دردی سے قتل بھی کر دیتے ہیں۔ ایسے وحشی درندوں کو سرعام پھانسی دینی چاہیے۔ جس طرح ضیاء الحق مرحوم نے پپو قتل کیس میں مجرم کو چوک میں سرعام پھانسی پر لٹکایا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اگلے پندرہ سال تک جنسی درندگی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ اصل میں 95 فی صد کام حکومت کے کرنے کا ہے۔ حکومت کا کام ہے کہ اسلامی سزائیں نافذ کرے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اسلامی سزائیں سخت ہوتی ہیں۔ لیکن معاشرے میں بچاؤ انہی سزاؤں کے نفاذ سے ممکن ہے۔ اسلامی سزا معاشرے کے سامنے ہوتی ہے اور ہزاروں لاکھوں لوگ عبرت پکڑتے ہیں۔ دو ملکوں ایران اور سعودی عرب میں کسی حد تک اسلامی سزائیں نافذ ہیں، جس کی وجہ سے جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ پاکستان میں لوگوں کو پتا ہے کہ ہم جرم کریں گے اور چھوٹ جائیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ سی۔ سی۔ ٹی۔ وی کیمرے لگائے۔ پولیس کو صرف کیس رپورٹ کرنے کی حد تک رکھے تفتیش کے لیے الگ ادارہ ہونا چاہیے۔ جیسا کہ باہر ملکوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ثبوت بھی پولیس کو دینے ہوتے ہیں۔ جدھر سے پولیس کو زیادہ پیسہ ملتا ہے۔ پولیس ادھر کو ہوجاتی ہے۔ 97 فی صد مجرم سسٹم میں خرابی کی وجہ سے سزاسے بچ جاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق تمام صوبوں میں بچوں کے حقوق کے قوانین موجود ہیں۔ لیکن محکموں کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہے۔ نیشنل پولیس بیورو کے پاس بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ریکارڈ تک موجود نہیں۔ صرف پنجاب میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو بنایا گیا ہے۔ جس کا کام یہ ہے کہ
بچے کی گمشدگی کی اطلاع بیورو کی ہیلپ لائن پر دیں۔ ماں باپ بھی اولاد کے حوالے سے بے حسی ختم کریں۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب بچہ اکیلا مسجد اور اسکول سے پڑھ کر آجاتا تھا۔ ماں باپ کیوں بچوں کو اکیلے باہر بھیجتے ہیں۔ والدین بھی بچوں پر توجہ دیں۔ ان کی بہتر تربیت کریں۔ بچوں کو زیادہ وقت دیں۔ بچوں اور اپنے درمیان خوف و ڈر اور جھجھک کی فضا کو ختم کریں۔ ان سے روز مرہ کے معمولات پر گفتگو کریں۔ بچوں کی بات توجہ سے سنیں۔ اور کسی بھی حرکت و شکایت پر فوری نوٹس لیں۔ معصوم بچے اکثر محلے کی دکانوں یا اسکول جاتے ہوئے کسی جاننے والے یا قریبی عزیز کی باتوں میں آکر اس سے تنہا ملنا جلنا شروع کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے زیادتی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ والدین ایسے معاملات دبانے کے بجائے فوری ایکشن لیں۔ بچوں کو ان انسان نما بھیڑیوں سے بچانے کے لیے ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھنے کے ساتھ بچوں کی تربیت پر بھی خاص توجہ دینا ہوگی۔ جدید ٹیکنالوجی کے کم عمری میں غلط استعمال سے معاشرے میں ہوس کا بڑھ جانا معاشرے کے لیے خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ بعض اوقات بچہ ڈرکر گھر والوں کو کچھ نہیں بتاتا۔ اگر بتا بھی دے توگھر والے مصلحتاً عزت بچانے کی خاطر چپ کر جاتے ہیں۔ 62 فی صد کیسز میں قریبی رشہ دارملوث ہوتے ہیں۔ بچوں کوآگہی دیں۔ مائیں بچوں کو بلوغت کے مراحل سمجھائیں۔ ہمیں بھی ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری ذمے داری ہے کہ بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف آواز بلند کریں۔