اختر بھوپالی
ہمیں اس جملے کے معنی تو معلوم نہیں ہاں! یہ جملہ ہم نے عدالتی اشتہارات کے متھے پر ضرور لکھا ہوا دیکھا ہے اور زیریں تحریر سے یہ اندازہ لگایا کہ یہ جملہ متنبہ یعنی WARNIG کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ چناں چہ کراچی کی غیر منتخب انتظامیہ (کمشنری نظام) اور محکمہ ٹرانسپورٹ کے عملے کے لیے عرض ہے ’’مشتری ہوشیار باش‘‘ چوں کہ سندھی حکومت نے کراچی کے عوام کی سہولت کی خاطر 1000 بڑی بسیں چلانے کے لیے ڈائیو کمپنی سے معاہدہ کیا ہے جس کی پہلی قسط کے طور پر 200 بسوں کو کراچی میں ہونا چاہیے تھا مگر بوجہ کچھ تاخیر ہوگی جس کی ڈائیو کمپنی نے معذرت کرتے ہوئے جلد ہی وعدے کی تکمیل کی خواہش کا اظہار کیا ہے جس کے جواب میں صوبائی حکومت نے وعدے کی عدم تکمیل پر جرمانہ کا عندیہ دے دیا ہے۔
ذرا سوچیے! کراچی کی سڑکوں پر جب ایک ہزار بڑی بسیں چلیں گی (خواب سا نہیں لگ رہا) تو پھر کون ان چنگچی، مزدا اور کوچوں میں گھس کر سفر کرے گا تو جن لوگوں نے بڑی منصوبہ بندی کرکے کراچی کی ٹرانسپورٹ پر قبضہ کیا ہے، کیا وہ اپنے پھلتے پھولتے کاروبار کو تباہ ہوتا دیکھ سکیں گے۔ یہ ٹرانسپورٹر حضرات المعروف ٹرانسپورٹ مافیا جنہوں نے سخت جدوجہد، باعمل منصوبہ بندی اور اغیاروں کے پیٹ بھر کر کراچی کو ٹرانسپورٹ سے آزاد کرایا ہے اور اب وہ کہاں چاہیں گے کہ کراچی کے عوام کو پھر سے سرکاری ٹرانسپورٹ مہیا ہوجائے اور وہ بغلیں بجاتے رہیں۔ ماضی میں کراچی میں KRTC کی بسیں بھی چلا کرتی تھیں، جب وہ ختم ہوگی تو سوئیڈن سے خیرات میں بڑی بسیں آئیں اور جلد پرزے نہ ہونے کا بہانہ بنا کر کھڑی کردی گئیں، پھر KTS کے تحت سرکاری بسیں چلیں اور گمشدہ۔ سی این جی کے نام سے بڑی بسیں چلیں اور بند ہوگئیں۔ گرین بسیں بھی چلیں۔ ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں UTS کے نام سے بھی بسیں چلانے کی کوشش کی گئی، مصطفی کمال نے مزید گرین بس چلانے کی کوشش کی مگر وہ بھی اہل کراچی کے لیے بے سود ہی گئی اور اس کے ساتھ بنائے گئے بکنگ اسٹاپ تک نذر آتش کردیے گئے۔ اب ان میں سے چند ایک دانے روڈ پر یادگار کے طور پر نظر آتے ہیں بقیہ تمام بسیں کہاں گئیں۔ کچھ بلاکوں پر کھڑی ہیں اور کچھ کے ڈھانچے نیچے زمین پر پڑے ہیں جب کہ پرائیویٹ سیکٹر میں 1950ء کی لی لینڈ، بینڈفورڈ اور فیٹ ابھی تک روڈوں پر رواں دواں ہیں۔ سرکاری بسوں کی یہ حالت کیسے اور کس نے بنائی، یہ ہے ٹرانسپورٹ مافیا کا خفیہ کارنامہ۔
سرکاری بڑی بسوں کی تباہی کے بعد اس مافیا
نے شہر میں منی بسوں کا جال بچھادیا۔ چھوٹی گاڑیوں کی بھرمار سے ٹریفک کی روانی میں خلل پڑا اور منی بسوں کے پرمٹ بند ہوئے تو انہوں نے کوچوں کے نام سے چھوٹی گاڑیوں کے پرمٹ لینا شروع کردیے، طے یہ کیا گیا کہ یہ کوچیں صرف سیٹ بائی سیٹ اور صرف مخصوص چند اسٹاپ پر ٹھیرا کریں گی۔ ان کا کرایہ تھوڑا زائد ہوگا مگر عوام کو سہولت حاصل ہوجائے گی، اب یہ کوچیں کرایہ تو زائد لے رہی ہیں مگر سواریاں چھتوں پر ہوتی ہیں اور اسٹاپ کے بغیر بھی کھڑی ہوجاتی ہیں اور بعض اسٹاپوں پر سواریوں کے انتظار میں کھڑی کردیتے ہیں۔ کوچوں کے پرمٹ پر پابندی لگی تو میٹرو کے نام سے پرمٹ لینا شروع کردیے، مگر کسی نے بھی عوام کی سہولت کی خاطر بڑی بسیں چلانے کی کوشش نہیں کی۔ ہم یہاں یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ اسی مافیا نے لوکل ٹرین ریلوے حکام کی ملی بھگت سے خسارے کے نام پر بند کرائی، حالاں کہ ان لوکل ٹرینوں میں ہزاروں نہیں لاکھوں افراد سفر کیا کرتے تھے۔ اسی مافیا نے کراچی سرکلر ریل بھی بند کرائی اور پھر اس کی راہ داریوں پر (ریلوے لائن) پر غیر مقامی افراد کو قابض کردیا کہ اب ان کو ہٹانا بھی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔
پیپلز پارٹی نے اپنے دس سالہ دور میں صرف دس کوسٹر لانڈھی قائد آباد سے ٹاور چلائی ہیں یعنی ایک سال ایک گاڑی وہ بھی کوسٹر۔ اب ایک اور دلفریب اعلان کیا ہے کہ وہ ہائی روف سروس چلا رہی ہے جو ملیر 15 سے ٹاور تک چلائی جائے گی اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس ہائی روف سروس میں بزرگ شہری مفت اور اسٹوڈنٹ کا کرایہ نصف ہوگا۔ اب خود ہی اندازہ لگائیں ہائی روف میں سات آٹھ افراد ہی سوار ہوسکتے ہیں جب کہ ہر اسٹاپ پر سترہ اسٹوڈنٹس اور تین چار بزرگ کھڑے نظر آتے ہیں، پھر یہ گاڑی پہلے ہی اسٹاپ سے بھر کر چلے گی تو درمیان والے تو صرف آتے جاتے ہی دیکھیں گے۔ پھر جب ان گاڑیوں میں صرف اسٹوڈنٹس اور بزرگ ہی سوار ہوں گے اور عوام کو جگہ نہیں ملے گی تو خرچہ کہاں سے پورا ہوگا۔ تو نتیجہ سروس ختم کردی جائے گی۔ اب اگر یہ گاڑیاں پرائیویٹ سیکٹر کی ہوں گی تو اس کو پیشگی اتنا دے دیا جائے گا کہ وہ دوسروں کا بھی حصہ نکال سکیں اور اگر سرکاری ہوئی تو سرکاری افسران میں بٹ جائیں گی یا پھر اسکریپ کے نام پر اونے پونے اپنوں میں بانٹ دی جائیں گی۔ ہم یہاں سندھی حکومت کو مخلصانہ مشورہ دیں گے کہ ہائی روف کی جگہ کوسٹر سروس شروع کریں اور نئی بسوں کے اسٹاف کی بھرتی میں معذرت کے ساتھ مقامی افراد کو ترجیح دیں کہ کراچی میں 1950ء کی گاڑیاں مقامی افراد ہی چلارہے ہیں۔ ہمارا کام آگاہی ہے اور وہ ہم کررہے ہیں بقیہ مشتری ہوشیار باش۔