عالیہ بھٹہ
قدم کشاں کشاں منزل کی جانب رواں تھے ناظم کراچی نے بلایا تھا اور قدم اطاعتِ ناظم میں رواں تھے ۔ وقت سے15 منٹ پہلے پہنچ کر رجسٹریشن کے بعد اگلی صف کے ثواب کو پانے آگے بڑھتے چلے گئے کہ ضلعی ٹیم سے تعلق رکھنے والی بہن کو دیکھ کر ان کی جانب لپکے، اُدھر بھی گرمجوشی کا ایسا ہی عالم تھا حال احوال اور معانقے کے بعد متلاشی نگاہیں دیگر جنت کے راہی تلاشنے لگیں یہ کیا تعلق ہے یہ کیسا لگائو ہے جو ایک کلمے سے جڑ کر اس کلمے کی خاطر کام کرنے والوں میں بن جاتا ہے سوچ اور عقل سے ماورا ہے اس محبت کی منطق ، پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنے کے ساتھ ہی پنڈال میں گونجتے ترانوں کی آوازیں جوش و خروش سے دمکتے چہرے جو موجود ہیں ان سے ناموجود کے بارے میں سوال معانقے ، مصافحے ہ سب کون لوگ ہیں ناں تو ان کا خاندان ایک ہے نہ برادری نہ رنگ نہ نسل پھر بھی شناسائی کا وہ عالم کہ ایک دوسرے کو پا کر مسرت اور والہانہ پن سے مل رہے ہیں ۔
اسٹیج کی طرف سے مائیک کی کھڑکھڑاہٹ نے پروگرام شروع ہونے کا عندیہ دیا تو جلد ہی قرآن کی تلاوت کے ساتھ ہی وہ لطف اور گرمجوشی ملاقاتوں کے جذبات پر سکون ہوتے چلے گئے ۔ جواب دہی کے خوف اور جواب دہی کے احساس نے باور کرا دیا کہ یہاں ہماری آمد کا مقصد ، ملاقاتیں ، معانقے ، مصافحے اور باتیں نہیں کسی عہد کی تجدید کرنے کے لیے ناظم نے طلب کیا تھا ۔ پر عجیب سراسیمگی سی طاری ہو گئی تو دل نے تاویلیں دے دے کر اس کیفیت کو تھپکنا شروع کر دیا ۔ہاں ناں ہم کیوں پریشان ہوں ہفتہ وار درس ، کلاس ، ایک دو رابطے ، ملاقات ، اتنے سارے کاموں ، گھریلو و خاندانی مصروفیات کے باوجود بھی ’’ کچھ نہ کچھ‘‘ تو کر ہی لیتے ہیں خیر ہے اب کیا کریں اور؟ ’’دل مضطرب جو اس آیت پر حالت اضطراب میں آ گیا تھا کہ ستم کیا سمجھتے ہو کہ ایسے ہی جنت مل جائے گی؟‘‘ ابھی دل کو تسلیاں دے ہی رہے تھے کہ ناظمۂ صوبہ عطیہ نثار کا خطاب شروع ہو گیا ۔
عطیہ باجی نے بہت ہی ہلکے پھلکے مزاح بھرے انداز میں اسٹارٹ لیا تو دل کو کچھ اور تقویت ملی مگر یہ کیا عطیہ باجی نے اسی ہلکے انداز کو جب الفاظ کی گولہ باری میںبدلا تو گویا قدموں سے زمین سرکنا شروع ہو گئی ۔ اب تک جو لگ رہا تھا کہ فقط جنت کے راہبوں کے شانہ بشانہ چل لیں گے تو جنت مل جائے گی سارے دن اپنے کاموں کو ترجیحی بنیادوںپر کرتے ہوئے ایک آدھ کام کر لیں گے تو بات بن جائے گی مگر یہاں تو بتایا جا رہا تھا کہ رسول اکرم ؐ کی حدیث کے مفہوم کے مطابق دنیا کا نقصان ہو گا تو آخرت بنے گی وگرنہ آخرت کا نقصان کر کے دنیا ہی بناتے رہے تو سخت نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دل کی دنیا میں بھونچال سا آ گیا تھا ۔میں تو بچوں کو ہوم ورک کرانے کے لیے بہت زیادہ حساس ہوں بلکہ ہر ماں کا فوکس ہوم ورک ہے اور ایک ہوم ورک میرے آقا ؐ نے حجۃ الوداع کے دن مجھے بھی تو دیا تھا ناں میں نے کہاں تک کیا؟ مگر اس کی نظر آنے والی کتاب کے قانون کو دیکھ کر بھی نہیں مانتے کیونکہ اللہ کو مان لینا آسان ہے مگر اس کی کتاب میں درج وہ قوانین مشکل لگتے ہیں کہ ہمارے دورِ غلامی کی تربیت کا حصہ نہیں ہں کسی بھی سورۃ کا وظیفہ کرنا بہت آسان ہے مگر اس سورۃ کو مان کر عمل کر کے وقت کے فرعونوں اور نمرود کو للکارنا صرف خانوادۂ نبوت ؐ کے جانشینوں ہی کی وراثت میں ملتا ہے ۔ جیسے ہم ’’شہادت حق‘‘ میں پڑھنے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حسین ابن علی کے لیے تھا میرے لیے وہ ہے جو میں کر رہی ہوں ۔
ناظمۂ صوبہ کا خطاب اور اس خطاب کی معنویت پر میرا لرزتا ہوا دل سوچ کی لہریں انتشار کا شکار تھیںکیوں ، کیسے کس طرح اس پر عمل پیرا ہواجا سکتا ہے کہ اس شعر کی گونج نے روشنی کا کام انجام دیا ہر تصویر پر واضح ہو گئی ۔
یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
میرا بچہ اگر کسی کمرے میں ہو اور وہاں آگ لگ جائے تو میں کیا انتظار کروں گی فائر بریگیڈ کا کہ وہ آئے گی آگ بجھائے گی تو میرا بچہ آ جائے گا ۔میری مامتا اتنا انتظار کرے گی؟
تو بس عطیہ باجی میری اس مامتا کو جگا رہی تھیں کہ وہ جو میرے اورمیرے بچوں کی فلاح کے لیے راتوں کو جاگا کرتے وہ میرے غم میں گھلا گئے وہ جو میرے حبیب ﷺ ہیں جو سب کے دل کے قریب ہیں وہ جن کا عشق حرزِ جان وہ محمد مصطفی ﷺ ان کی امت کی آج آگ کے گڑھے کے نزدیک تر ہو رہی ہے اسے بچانے کے لیے میری اس مامتا کا لیول برھانے کی کوشش کرتے ہوئے عطیہ باجی کی آواز کا زیرو بم لرزاں تھا ۔ یہان تک کہ اس مامتا کو5نکاتی عہد میں پرو کر اس عہد کی جب تجدید کراتی تو آہوں اور سسکیوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ میری میت ہے اور سارے پنڈال میں کلمۂ شہادت گونج رہا ہے یہ خیال ہی لرزا دینے والا تھا کہ اب میری مہلتِ عمل ختم اب کلمۂ شہادت کے سائے میں میری تدفین ہو گی ۔مگر برستی آنکھیں کھول کر دیکھا تو امید کے جگنو ان آنکھوں میں لہرا سے گئے کہ نہیں ابھی میرا وقت ہر چند کہ قریب ہے مگر ابھی نہیں آیا مجھے مزید کچھ دن کی مہلت عمل مل گئی ۔ قربان جائوں اپنی اس اجتماعیت کے کہ جو ابھی ذمہ داری اٹھار ہی ہے کہ وہ مجھے قبر کے 3اور حشر کے میدان کے5 کل آٹھ سوالات کی تیاری کرائے گی اس نے میری تربیت کا ذمہ اٹھا یا ہا ہے ۔ آج نہیں تو کل میری تیاری ہو جائے گی ، ان شاء اللہ بدلے میں مجھے اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنا ہے بندگی رب کا حق ادا کرنا ہے ۔ پوری یکسوئی کے ساتھ خاندان کے ، گھرانوں کے ، افراد کو فوکس کر کے ایک ایک فرد سے ایسے ملاقات کرنی ہے جیسے میرے آقا ﷺ محبت کے حصار میں لے کر ایک ایک فرد کو آگ سے دور کرتے رہے ۔ اس عہداست کی یاد کو تازہ کرتے کراتے دعا پر اختتام ہوا یوں لطف و عنایت سے پر گرمتی جذبات سے تر جس محبتوں بھرے دن کا آغاز اس جنت کا سماں باندھے پنڈال سے ہوا تھا ۔ اختتام پر ہی جنت کا منظر پیش کرتا پنڈال حقیقی معنوں میں جنت کی تیاری کے مراحل پر اختتام پذیر ہوا ۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اور خود احتسابی کے خوف سے ہر دل لرزہ براندم تھا آئندہ کی پلاننگ اور لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے ساتھیوں کے ہمرا واسی کے سفر پر روانہ ہوئے ۔ اب یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ کڑھی کے اُبال کی طرح وقتی کیفیت چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ، مگر جناب یہی تو ہماری اجتماعیت کا حسن ہے کہ چار دن تذکیرکے حصار میں خوف الٰہی کے ساتھ مگر اس کے بعد اندھیری رات نہیں بلکہ ایک اور روشن صبح کے ساتھ پانچویں دن تذکیر کاکوئی اور پروگرام کیوں کہ اس نے ذمہ داری لی ہے ناں مجھے جنت میں پہنچا کر ہی دم لے گی ان چار دنوں کے بعد اگلے پروگرام کے لیے اجازت اگر اگلے پروگرام سے پہلے ملک الموت صاحب سے ملاقات ہو گئی تو ان شاء اللہ جنت میں آپ سب سے ملاقات ہو گی ۔
پھر کیا خیال ہے جنت کے اعلیٰ مقام کو پانے کی تیاری کے کورس میں آپ حصہ لے رہے ہیں ناں ہماری اجتماعیت میں؟ جلدی کیجئے وقت کم ہے اور مقابلہ سخت