ـ2019: بھارت میں اقلیتوں کے لیے خوف و تشدد کی علامت

314

ثوبیہ شاہد
خود کو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک کہلوانے والے بھارت میں برسر اقتدار ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت میں گزشتہ سال بھی مذہبی اقلیتوں کے لیے دشواریوں کا سال ثابت ہوا۔ اپریل 2019ء میں بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات بھی منعقد ہوئے جس میں ایک مرتبہ پھر ہندو انتہا پسند فتح یاب ہوئے اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب رہے۔
بھارت میں جب سے بی جے پی برسر اقتدار آئی ہے بھارت کا منظر نامہ ایک ہندو غلبے کے زیر اثر معاشرہ بن چکا ہے جہاں اقلیتوں کو آئے روز جبر و ستم یا تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ برس کی طرح اس برس بھی اونچی ذات کے جنونی ہندوؤں کی جانب سے نچلی ذات کے ہندوؤں، مسیحوں اور مسلمانوں کے خلاف تعصب اور بدسلوکی کے متعدد واقعات سامنے آئے۔ واضح رہے کہ بھارت کی 79.80 فیصد آبادی ہندووں، 14.2 فیصد مسلمانوں، 2.3 فیصد مسیحی افراد، 1.7 فیصد سکھوں 0.7 فیصد بودھ، 0.4 فیصد جین مت کے ماننے والوں اور 0.07 فیصد یہودیوں، پارسیوں اور دیگر قبائلی مذہبی اقلیتوں پر مشتمل ہے۔
یوں مسلمان بھارت میں سب سے بڑی اقلیت ہیں جو تقسیم ہند سے قبل ہندوستان میں سیکڑوں برس حکمران بھی رہے، تاہم تقسیم ہند کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں کو تعصب کا سامنا رہا اور بھارت کے بانی رہنماؤں میں سب سے معروف موہن داس کرم چند گاندھی ہی کو 1948ء میں ہندو مسلم اتحاد کی وکالت کرنے پر ایک ہندو انتہا پسند نتھورام گوڈسے نے قتل کردیا تھا۔ ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرنے پر ہندو انتہا پسندوں کی اکثریت مہاتما گاندھی کو غدار قرار دیتی ہے حالانکہ وہ خود ایک کٹر ہندو تھے، اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گاندھی کے قاتل کو ہیرو کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ گاندھی کے قتل کے بعد ان کی باقیات ہندو رسومات کے مطابق دریا میں بہانے کے بجائے محفوظ کرلی گئی تھیں جو بھارت کے مختلف شہروں میں قائم کی گئیں ان کی یادگاروں میں محفوظ ہیں۔ رواں برس اس حوالے سے انتہا پسندی کا ایک مظاہرہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب مہاتما گاندھی کے 150ویں یوم پیدائش کے موقع پر بھارت کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں ان کی استھی (باقیات) ایک یادگار سے چوری کرلی گئیں تھیں۔
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک، تشدد اور جھوٹے الزامات کے تحت قتل جیسے انتہائی قدم اٹھائے جانے کے واقعات کے بعد کئی عالمی تنظیمیں تشویش کا اظہار کرچکی ہیں جن میں کچھ درج ذیل ہیں:
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم کی بھارت کی ویب سائٹ ’ہالٹ دی ہیٹ‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت میں سال 2016ء سے نفرت انگیزی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا اور یہ ابتر صورت حال رواں برس کے ابتدائی 6 ماہ میں بدترین حد تک پہنچ گئی تھی۔
رپورٹ کے چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
2019ء کے ابتدائی 6 ماہ میں 181 مبینہ نفرت انگیز واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جو گزشتہ 3 برس کے اس دورانیے سے دوگنا ہیں۔
ستمبر 2015ء سے جون 2019ء تک ’ہالٹ دی ہیٹ‘ نے بھارت میں مجموعی طور پر 902 واقعات ریکارڈ کیے جن میں سے 181 مبینہ نفرت انگیز واقعات رواں برس جنوری سے جون کے درمیان پیش آئے اور ان میں 37 افراد ہلاک ہوئے۔
جنوری سے جون 2019ء کے دوران دو تہائی واقعات ہندوؤں کی نچلی ذات دلت کی شناخت پر پیش آئے اور دوسرے نمبر پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے 40 واقعات ریکارڈ ہوئے، آدیواسی 12، عیسائی 4 اور جنسی تفریق پر 6 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔
اسی طرح متعدد واقعات دلت برادری کے افراد کو سرعام چلنے، پانی اور اسکولوں کی سہولت سے دور رکھنے سے متعلق تھے۔ گائے اور غیرت کے نام پر قتل کے 17 واقعات رپورٹ ہوئے۔
جن خواتین نے خود کو دلت، مسلمان، عیسائی یا کسی جنس کے حوالے سے شناخت کرایا، ان کو تشدد کا نشانہ بنانے کے 58 واقعات پیش آئے، جن میں 30 خواتین کو یا تو ریپ کا نشانہ بنایا گیا یا جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔
فروری 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلواما میں بھارتی فوج کے 42 اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد ہجوم کی جانب سے کشمیری مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے 14 واقعات بھی پیش آئے۔
فروری 2019 میں سب سے زیادہ 37 واقعات پیش آئے جس کے بعد مارچ میں 36 نفرت انگیز واقعات رپورٹ ہوئے۔
مشتعل ہجوم کا نشانہ بننے والے واقعات مجموعی طور 72 ریکارڈ ہوئے جن میں سے نصف سے زیادہ 37 واقعات میں مسلمان نشانہ بنے۔
ان تمام واقعات میں متاثرین کو یا تو ’’وندے ماترم‘‘ یا ’’جے شری رام‘‘ یا ’’جے ہنومان‘‘ یا پاکستان مخالف نعرہ لگانے یا سر سے ٹوپی اتارنے پر مجبور کیا گیا جبکہ 5 افراد کو ہجوم کے تشدد میں مارا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ بھارت میں 2015ء میں نریندر مودی کی قیادت میں بننے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے دوران اتر پردیش، گجرات، راجستھان، ہریانہ اور شدت پسند جماعت کی قیادت میں تامل ناڈو میں نفرت انگیز واقعات میں بدترین اضافہ ہوا۔
ہیومن رائٹس واچ کا انکشاف
گزشتہ برس فروری میں انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے انکشاف کیا تھا کہ بھارت میں گائے ذبح کرنے پر مشتعل ہجوم کی جانب سے قتل کے اکثر واقعات میں بھارتی پولیس ملوث ہوتی ہے۔
مئی 2015ء سے لے کر گزشتہ برس دسمبر تک ایسے حملوں میں کم از کم 44 افراد کو قتل کیا گیا جن میں سے 36 افراد مسلمان تھے اور تقریباً تمام مقدمات میں پولیس نے یا تو ابتدائی تحقیقات روک دیں، طریقہ کار کو نظر انداز کیا اور قتل کی واردات یا اس کو چھپانے میں خود پولیس ملوث تھی، یہاں تک کہ پولیس کی جانب سے گائے ذبح کیے جانے پر پابندی کے قوانین کے تحت متاثرہ خاندان کے افراد کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے تاکہ انہیں ڈرا کر انصاف حاصل کرنے سے روکا جاسکے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے بعض اراکین نے بھی مسلمانوں اور دلت ذات سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں کی حمایت کی تھی۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ برائے مذہبی آزادی
بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر عالمی ادارے بھی کئی مرتبہ تشویش کا اظہار کرچکے ہیں اور امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بھی بھارت میں مذہبی آزادی کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کر کے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ عالمی مذاہب کو حاصل مذہبی آزادی سے متعلق سالانہ رپورٹ میں تصدیق کی گئی کہ بھارت میں انتہاپسند ہندوؤں نے مسلمان اور ہندوؤں کی نچلی ذات ’’دلت‘‘ کو دھمکیاں دیں، ہراساں کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔
امریکی رپورٹ میں جن اہم نکات کا ذکر کیا گیا تھا وہ درج ذیل ہیں:
بھارت میں ایک تہائی ریاستوں کی حکومتوں کی جانب سے تبدیلی مذہب اور گائے کے ذبح کے خلاف بنائے گئے قوانین کے غیر ہندوؤں اور دلتوں پر جبری اطلاق میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
خود کو گاؤ رکھشک (گائے کے محافظ) کہلوانے والے ہجوم کی جانب سے مسلمانوں اور دلت کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، تشدد کا شکار بننے والوں میں وہ بھی شامل ہیں جو قانونی طور پر کئی نسلوں سے ڈیری، چمڑے اور گائے کے گوشت کے کاروبار سے منسلک تھے۔
اس کے ساتھ ہی جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے کا الزام عائد کرتے ہوتے مسیحی برادری کو بھی ہندو انتہا پسندوں کے ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنایا۔
گائے کو ذبح کرنے یا جبری تبدیلی مذہب کے جھوٹے الزامات عائد کر کے ہجوم کی جانب سے کسی شخص کو قتل کرنے کے کیسز میں پولیس کی تحقیقات اور پراسیکیوشن موثر انداز میں نہیں کی جاتی۔
غیر ملکی فنڈز سے چلنے والی تنظیموں کے اندراج کے قواعد کا مذہبی اقلیتی گروہوں کے خلاف امتیازی طور پر اطلاق کیا جاتا ہے۔
بھارتی عدالت عظمیٰ نے بذات خود بھی کچھ ریاستوں میں مذہبی آزادی کی بدترین صورتحال پر روشنی ڈالی اور ریمارکس دیے تھے کہ ریاستیں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لیے قابل اطمینان اقدامات نہیں کررہی اور کچھ انتہائی سنگین نوعیت کی صورتحال میں مذہبی تشدد میں شامل افراد کو آزادی دی گئی۔
وزیراعظم نریندر مودی شاذ و نادر ہی ہجوم کے تشدد کے خلاف کوئی بیان دیتے ہیں اور ان کی سیاسی جماعت کے اراکین کے ہندو انتہا پسند تنظیموں سے بھی روابط ہیں اور وہ سرِ عام مذہبی اقلیتوں کے خلاف بیانات دیتے نظر آتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں بڑے پیمانے پر حملوں کا نشانہ بننے والے متاثرین کو انصاف نہیں مل سکا اور نہ ہی مذہبی اقلیتوں کے خلاف جرائم کی اطلاعات پر مناسب کارروائی کی گئی یا مقدمہ چلایا گیا۔
کشمیریوں کے خلاف بھارتی اقدامات
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت میں تبدیلی کے پیشِ نظر بھارتی حکومت نے وادی میں کرفیو اور لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے ساتھ ہر قسم کے مواصلاتی رابطے منقطع کردیے تھے جو 4 ماہ کے بعد بھی تاحال مکمل طور پر بحال نہیں ہوسکے۔ اس کے علاوہ حریت رہنماؤں سمیت بھارت کی حمایت کرنے والے کشمیری رہنماؤں اور سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو بھی نظر بند کردیا گیا تھا۔ دوسری جانب ہزاروں کشمیریوں کو بھی حراست میں لیا گیا، بھارتی حکومت کے غاصبانہ اقدامات کے تحت سیکڑوں لوگ اسپتال جانے سے محروم رہے اور زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ کئی نوجوان مظاہروں کے دوران فورسز کے تشدد کے باعث جاں بحق ہوئے۔
دنیا میں نسل کشی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے جینوسائڈ واچ نے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر اور اس کی ایک ریاست آسام کے لیے انتباہ جاری کیا کہ وہاں نسل کشی کا خطرہ ہے۔ علاوہ ازیں بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی مسلمان اکثریتی آبادی کی مذہبی آزادی کو نشانہ بنایا اور دو اہم مواقع عاشورہ اور ربیع الاول پر کشمیریوں کو جلسے جلوس یا کسی قسم کی سرگرمی سے روک دیا گیا تھا۔
بھارتی اپوزیشن کی مخالفت
مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے بی جے پی کے اس فیصلے کے خلاف بھارتی اپوزیشن کی جانب سے ایوان اور ایوان سے باہر بھی سخت ردعمل سامنے آیا اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر ‘شرم ناک دن’ قرار دیا گیا۔ کانگریس کے سینئر رہنما اور راجیا سبھا (بھارتی ایوان بالا) میں قائد حزب اختلاف غلام نبی آزاد نے کہا کہ ’آج بی جے پی نے آئین کا قتل کردیا ہے اور اس نے جمہوریت کا قتل کردیا ہے’۔ بعدازاں کشمیر کی صورتحال جاننے کے لیے اپوزیشن کی مرکزی جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ مقبوضہ وادی کا دورہ کیا لیکن مودی حکومت نے انہیں ایئرپورٹ سے ہی واپس بھیج دیا تھا۔ واپس بھیجے جانے کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ مقبوضہ جموں اور کشمیر میں صورت حال واضح طور پر ٹھیک نہیں ہے اور انہیں مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام سے اختیار کی جانے والی سختی اور ان پر ہونے والے مظالم کا عملی تجربہ ہوگیا ہے۔ دوسری جانب بھارت کی 9 اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ جموں اور کشمیر میں کچھ بہت سنگین ہورہا ہے جسے حکومت چھپانے کی کوشش کررہی ہے اور میڈیا کو بھی سچ دکھانے کی اجازت نہیں۔
بابری مسجد کا فیصلہ
رواں برس نومبر میں بھارتی سپریم کورٹ نے تاریخی بابری مسجد کیس کا 27 سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین پر رام مندر تعمیر کرنے اور مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کے لیے متبادل کے طور پر علاحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔ یوں تو بھارت کی عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے انتخابی منشور میں ہندو ووٹرز کے ساتھ کیا گیا وعدہ شرمندہ تعبیر ہوگیا، جسے مسترد کرتے ہوئے بھارت کی جماعت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور لوک سبھا کے حیدرآباد دکن سے منتخب رکن اسد الدین اویسی نے کہا تھا کہ کہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے میں مسلمانوں کو بابری مسجد کے بدلے اتر پردیش میں 5 ایکڑ کی خیرات دیے جانے کی ضرورت نہیں۔
بھارت کا متعصبانہ شہریت قانون
بی جے پی نے جہاں پورے سال مسلمانوں کے خلاف اقدامات کیے وہیں سال کے آخری مہینے میں انتہائی متعصبانہ شہریت بل منظور کر کے واضح کردیا کہ وہ بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے درپے ہے۔ اس متنازع شہریت قانون کے تحت بھارت میں پڑوسی ممالک سے آنے والے تمام غیر مسلم افراد کو شہریت دینے کے عمل کو تیز کردیا گیا، مذکورہ بل لوک سبھا (ایوانِ زیریں) کے بعد راجیہ سبھا (ایوانِ بالا) میں بھی اکثریت سے منظوری کے بعد ایکٹ (قانون) کی شکل میں نافذ ہوگیا ہے۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں اس قانون کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا جہاں پہلے ہی پناہ گزین ایک بڑا مسئلہ ہیں اور وہاں موجود بھارتیوں کو خوف ہے کہ بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں ہندو آکر ان کی زمین پر قابض ہوجائیں گے۔
بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے اس قانون کی مخالفت کی اور اسے ملک کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم قرار دیا۔ کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے بل کی منظوری پر کہا کہ اس کی منظوری سے چھوٹے ذہن اور متعصب طاقتوں کی فتح ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج بھارت کی آئینی تاریخ کا تاریک دن ہے، یہ قانون ہمارے آباؤ اجداد کے بھارت سے متعلق خیال سے متصادم ہے جس کے لیے وہ لڑے اور قربانیاں دیں اور اس کی جگہ ملک کو تقسیم اور مسخ شدہ بنا دیا گیا ہے جہاں مذہب، کسی کی قومیت کا تعین کرے گا۔
شہریت ترمیمی قانون کیا ہے؟
شہریت قانون کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت دینا ہے، جبکہ ان میں مسلمان شہری شامل نہیں ہیں۔ اس قانون کے تحت 1955ء کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔
اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014ء سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ مت، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔ مذکورہ قانون کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا موقف ہے کہ اس کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلا دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی جو مارچ 1971ء میں آسام آئے تھے اور یہ 1985ء کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔
شہریت قانون کے خلاف بھارتی شہریوں کا شدید احتجاج
بھارت میں اس متنازع شہریت قانون کی منظوری کے بعد سے عوام سراپا احتجاج ہیں جن میں جامعات کے طلبہ اور سول سوسائٹی کے افراد پیش پیش ہیں، جن کے مطابق یہ بھارت کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کے اس متنازع قانون کے خلاف بھارت کے بڑے شہروں میں ہونے والے شدید احتجاج کے دوران کئی جگہ انتظامیہ اور مظاہرین کے درمیان تصادم کی صورت بھی اختیار کرگیا جس کے نتیجے میں 25 سے زائد افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوچکے۔ مسلمان اور غیر مسلموں پر مشتمل ہزاروں مظاہرین کے مطابق مرکزی حکومت کا یہ قانون مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے اور بھارت کے سیکیولر تشخص کی خلاف ورزی ہے کیونکہ آئین میں مذہب کی بنیاد پر شہریت کی گنجائش نہیں ہے۔ مظاہرین کے مطابق متنازع قانون اور شہریوں کی رجسٹریشن کا معاملہ مسلم اقلیت کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔
بعد ازاں یہ رپورٹس سامنے آئیں تھی کہ متنازع شہریت قانون متعارف کیے جانے کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں سمیت لاکھوں افراد کے احتجاج پر حکام مسلمانوں کو مختلف طریقے سے دھمکا رہے ہیں۔ بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کی رہنما پریانکا گاندھی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر میں یوپی پولیس کی ایک وڈیو جاری کی جس میں دیکھا اور سنا جاسکتا تھا کہ کس طرح بھارتی پولیس مسلمانوں کو دھمکا رہی ہے۔
اقلیتوں کے خلاف تشدد کے اہم واقعات
2018ء کی طرح 2019ء میں بھی اقلیتی مذہبی گروہوں کے افراد کو ہجوم کے ہاتھوں قتل، مذہب کی بنیاد پر تشدد، گائے کے گوشت کے جھوٹے الزامات عائد کر کے زدوکوب کیا جاتا رہا اور بھارتی حکومت ان واقعات کی روک تھام میں ناکام نظر آئی ایسے ہی چند واقعات درج ذیل ہیں:
مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے واقعات
فروری میں کشمیر کے علاقے پلوامہ میں 40 سے زائد بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارت میں کشمیری افراد کو تشدد کا نشانہ بنانے کے متعدد واقعات رونما ہوئے۔
ایسے ہی ایک واقعے میں پتھارے لگا کر اپنا گزر بسر کرنے والے کشمیری نوجوانوں کو ہندو انتہا پسندوں نے نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ اس واقعے کو فیس بک پر لائیو نشر کیا اور تصاویر بھی پوسٹ کیں۔
23 فروری کو نئی دہلی کے علاقے نین گلوری میں 2 کشمیری نوجوان اور پونے میں ایک کشمیری صحافی پر حملہ کرنے کے واقعات رونما ہوئے۔
کشمیریوں کے خلاف اس قسم کے متعدد واقعات منظر عام پر آنے کے بعد بھارتی سپریم کورٹ نے مرکزی وزارت داخلہ اور تمام ریاستی حکومتوں کو یہ انتباہ جاری کرنے کی ہدایت کی کہ وہ اپنی متعلقہ ریاستوں میں کشمیریوں کا تحفظ یقینی بنائیں، ساتھ ہی ریاستی پولیس کے سربراہان کو کشمیریوں کی حفاظت یقینی بنانے کا کہا گیا۔
مارچ میں ہولی کے تہوار کے موقع پر 20 کے قریب ہندو انتہا پسندوں نے گروگرام کے گاؤں دھامس پور میں محمد دلشاد کے گھر پر ڈنڈوں اور پتھروں سے حملہ کیا اور وہاں موجود افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ان پر لاٹھیاں اور ہاکیاں برسائیں۔ دلشاد نے اپنی شکایت میں کہا کہ ’حملہ آوروں نے ہمارے گھر پر پتھراؤ کیا، ہماری گاڑی کو نقصان پہنچایا اور گھر میں داخل ہوئے، ہم نے اپنی بیٹیوں اور نوجوان بچیوں کی عزت بچانے کے لیے انہیں دوسری منزل پر بھیج دیا تھا، ہم نے کئی مرتبہ پولیس کو بلانے کی بھی کوشش کی تاہم وہ تب ہی آئی جب حملہ آور جا چکے تھے‘۔
اپریل میں بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں موجود بدنام زمانہ ’تہاڑ‘ جیل انتظامیہ کی جانب سے مسلمان قیدی کے جسم پر ہندوؤں کے مذہبی نشان ’اوم‘ بنانے سمیت انہیں ہندو قرار دیے جانے کا معاملہ سامنے آیا۔ قیدی کے مطابق جب انہوں نے جیل انتظامیہ سے بیرک کے چولہے نہ چلنے کی شکایت کی تو جیل سپرنٹنڈنٹ راجیش چوہان کی شکایات پر ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا اور لوہے کی گرم دھات کے ذریعے ان کے جسم پر ’اوم‘ کا نشان بنادیا گیا۔
9 اپریل کو بھارت کی ریاست آسام میں نفرت کا اظہار کرتے ہوئے جنونی ہندوؤں نے ایک اور مسلمان پر گائے کا گوشت فروخت کرنے کا الزام لگا کر انہیں بری طرح تشدد کا نشانہ بنا ڈالا اور سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا۔ واقعے کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں دیکھا جاسکتا تھا کہ ہجوم نے ایک مسلمان بزرگ 68 سالہ شوکت علی کو گھیرا، جن کے کپڑے زدوکوب کیے جانے کے باعث کیچڑ میں لت پت اور پھٹ چکے تھے۔
13 اپریل کو بھارت میں غیر انسانی سلوک کا ایک اور بدترین واقعہ سامنے آیا، جہاں اونچی ذات کے ہندو نے نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے غریب مزدور کو انسانی فضلہ کھانے پر مجبور کیا۔ مذکورہ واقعے کے خلاف احتجاج کرنے والے سماجی رضاکار ڈاکٹر بابا آدھو نے کہا کہ میں وزیراعظم نریندر مودی سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ ’ہندو دہشت گردی‘ کا کیس نہیں؟
6 مئی کو بھارت کی ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں انتظامیہ کی جانب سے روڈ کو وسعت دینے کی آڑ میں 400 سالہ تاریخی مسجد کو شہید کیے جانے کے بعد تنازع کھڑا ہوا۔ مسجد کو انتظامیہ کی جانب سے شہید کیے جانے کے بعد ریاست تلنگانہ کے وقف بورڈ سمیت دیگر اداروں نے مسجد کی شہادت کو غلطی قرار دیا اور کہا کہ جس جگہ مسجد تعمیر تھی وہ جگہ 400 سال سے مسجد انتظامیہ کے لیے وقف تھی۔
25 مئی کو بھارت میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں ملک کی قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی کامیابی کے اعلان کے دوسرے ہی روز مشتعل ہجوم نے مبینہ طور پر گائے کا گوشت لے جانے والے مسلمان جوڑے کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ مشتعل ہجوم نے مسلمان جوڑے کو گھیرے میں لے کر نوجوان کو اسی کی اہلیہ پر تشدد کرنے کے لیے کہا تھا جس کے نتیجے میں نوجوان نے اپنی اہلیہ کے سر میں جوتے برسائے اور ساتھ ہی ان سے جے شری رام کے نعرے بھی لگوائے گئے تھے۔ مذکورہ واقعے کے 2 روز بعد ہی ایک مسلمان نوجوان محمد برکت کو ٹوپی پہننے پر ہندوتوا کے کارکنان کی جانب سے زدو کوب کرنے کا واقعہ سامنے آیا۔
نوجوان نے بتایا کہ ان افراد میں سے ایک نے میرے لیے دھمکی آمیز الفاظ استعمال کیے اور مجھے کہا کہ اس علاقے میں ٹوپی پہننے کی اجازت نہیں، جب میں نے انہیں بتایا کہ میں مسجد سے جارہا ہوں تو انہوں نے مجھے تھپڑ مارے اور بھارت ماتا کی جے اور جے شری رام کے نعرے لگانے کے لیے کہا، جس کا میں نے انکار کیا تو انہوں نے مجھے زبردستی سور کا گوشت کھلانے کی دھمکی دی۔
2 جون کو بھارت کے شہر بریلی میں بہدی تھانہ کی حدود میں یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے مسلمان مزدروں کو مبینہ طور پر گوشت کھانے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ واقعے میں تشدد کا نشانہ بنائے جانے والے ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ سبزی کا سالن کھا رہے تھے جب نامعلوم افراد نے حملہ کیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔