ڈاکٹر قدیر خان پر پابندی کیوں؟

564

پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے ممتاز سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی ہے کہ ان کی نقل و حرکت پر عاید ناروا پابندی ختم کی جائے اور انہیں اپنے ملک میں کسی رکاوٹ کے بغیر آزادانہ آنے جانے کی اجازت دی جائے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر خان نے لاہور ہائی کورٹ میں بھی یہ اپیل دائر کی تھی لیکن عدالتِ عالیہ نے سماعت کیے بغیر اسے خارج کردیا تھا اب ڈاکٹر خان نے سب سے بڑی عدالت سے رجوع کیا ہے اور اس سے اپنے ساتھ انصاف کی استدعا کی ہے۔ انہوں نے اپنی اپیل میں کہا ہے کہ وہ عملاً نظر بند ہیں۔ ان کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے وہ کسی اور سائنسدان کے ساتھ نہیں کیا گیا۔ ڈاکٹر خان نے عدالت عظمیٰ کو بتایا ہے کہ ان کی عمر 84 سال ہے۔ ان کی صحت بھی ٹھیک نہیں ہے ان کے جسم میں کینسر کے مرض کی تشخیص ہوچکی ہے، ایسی حالت میں ان پر پابندیاں جان لیوا ثابت ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جان کو خطرہ ہونے کا پروپیگنڈا حکومتی ادارے کررہے ہیں ورنہ ایک عمر رسیدہ کو کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں کیا خطرہ ہوسکتا ہے۔ جہاں انہیں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر خان نے اپنی اپیل کے ساتھ وہ خط بھی منسلک کیا ہے جو انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کو لکھا تھا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان بلاشبہ اس اعتبار سے ’’محسن پاکستان‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک بے وسیلہ ملک کو ایٹمی طاقت سے لیس کرکے اس کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔ حق تو یہ تھا کہ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں صدر مملکت کا منصب پیش کیا جاتا اور ان کی ہر مرحلے پر عزت افزائی کی جاتی۔ آخر بھارت نے بھی تو ایک مسلمان ایٹمی سائنسدان عبدالکلام کو ان کی خدمات کے اعتراف میں اپنے سب سے بڑے منصب یعنی صدر عوامی جمہوریہ بھارت کے عہدے سے نوازا تھا۔ حالاں کہ بھارت میں مسلمانوں کو جس ناروا سلوک کا سامنا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جب کہ پاکستان میں ڈاکٹر خان کی وہ قدر نہیں کی گئی جو کی جانی چاہیے تھی۔ بلکہ جب انہوں نے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے ہمکنار کردیا تو انہیں دانستہ ڈی گریڈ کرنے کی کوشش کی گئی اور ان کے مقابلے میں دوسرے سائنسدانوں کو اُبھارا گیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ دوسرے سائنسدانوں نے بھی ایٹمی شعبے میں بڑا کام کیا ہے اور آج پاکستان اس میدان میں جس مقام پر کھڑا ہے وہ ہمارے سائنسدانوں کی اجتماعی کوششوں ہی کا نتیجہ ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس شعبے میں جو مقام ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو حاصل ہے وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہے اور اس کا اعتراف عالمی سطح پر بھی کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں امریکا نے ڈاکٹر خان پر ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کا الزام لگا کر انہیں حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف نائن الیون کے بعد امریکا کے آگے لیٹ گئے تھے اور اس کے ہر حکم اور مطالبے کو پورا کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکا کے حوالے کرنے کا مطالبہ بھی انہوں نے تسلیم کرلیا تھا، لیکن 2002ء کے انتخابات کے نتیجے میں ایک برائے نام سول حکومت بھی قائم ہوچکی تھی اور ڈاکٹر خان کو امریکا کے حوالے کرنے کے لیے وزیراعظم کی منظوری ضروری تھی۔ میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم تھے وہ اگرچہ جنرل پریز مشرف کو اپنا باس سمجھتے تھے لیکن اس معاملے میں ان کی قومی غیرت جاگ اُٹھی اور انہوں نے اپنے ’’باس‘‘ کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔ جنرل پرویز مشرف تلملائے تو بہت لیکن کچھ نہ کرسکے اور ڈاکٹر خان کو لینے کے لیے جو امریکی طیارہ چک لالہ ائربیس پر کھڑا تھا نامراد واپس چلا گیا۔ باخبر ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ امریکا ڈاکٹر خان سے اعتراف جرم کرواکے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ہاتھ ڈالنا چاہتا تھا جو اس کی دیرینہ خواہش تھی اور اب بھی ہے۔ ہمیں میر ظفر اللہ جمالی کا ممنون ہونا چاہیے کہ انہوں نے امریکا کی یہ خواہش ناکام بنادی صدر جنرل پرویز مشرف سے کچھ بعید نہ تھا۔
جنرل پرویز مشرف نے بعد میں ڈاکٹر خان کو بے عزت کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی، انہیں ٹیلی ویژن پر لا کر معافی منگوائی اور انہیں ہر قسم کی ذمے داری سے سبکدوش کرکے گھر میں نظر بند کردیا۔ اور جب تک جنرل پرویز مشرف برسراقتدار رہے ڈاکٹر خان کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ ان کے سبکدوش ہونے کے بعد صورت حال میں کچھ بہتری پیدا ہوئی لیکن سیکورٹی کے نام پر اب بھی ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی ہے۔ وہ اپنے عزیز واقارب اور دوست و احباب سے بلا اجازت نہیں مل سکتے اور نہ ہی وہ لوگ ان کے پاس بلا اجازت آجاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر خان تعلیم کے فروغ میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کے نام سے کئی تعلیمی ادارے چل رہے ہیں، انہیں مختلف تعلیمی ادارے اپنی تقریبات میں بطور مہمان خصوصی بلاتے رہتے ہیں لیکن اجازت نہ ملنے کے سبب وہ ان میں شریک نہیں ہوپاتے۔ اس کا ذِکر ڈاکٹر صاحب نے عدالت عظمیٰ کے نام اپنی اپیل میں بھی کیا ہے۔ اُمید ہے کہ عدالت ان کی اپیل پر ہمدردانہ غور کرے گی اور ان کی سیکورٹی کے مناسب انتظامات کے ساتھ انہیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دے گی۔ نیز حکومت سے بھی گزارش ہے کہ وہ ڈاکٹر خان کے علاج معالجے پر بھی خصوصی توجہ دے اور ان کے وقار کو بحال کرنے کے اقدامات کرے۔ زندہ قومیں اپنے محسنوں کو بھولا نہیں کرتیں اور نہ ہی ان کے ساتھ بدسلوکی کرتی ہیں۔