محمد اکرم خالد
مہنگائی سے تنگ عوام کی اُمیدیں ایک بار پھر دم توڑ گئی ہیں یہ بات اب کافی حد تک واضح ہوچکی ہے کہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کو اب نہ اپوزیشن جماعتوں سے اور نہ ہی کسی غیر آئینی اقدام سے کوئی خطرہ لاحق ہے، یقینا خان صاحب کی حکومت اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کرتی نظر آرہی ہے، ڈیڑھ سال سے ہم اپوزیشن جماعتوں کی روایتی سیاست دیکھ رہے ہیں عوام کے نام پر کبھی ووٹ کو عزت دو تو کبھی کٹ پتلی حکومت سلیکٹڈ وزیر اعظم تو کبھی جعلی اسمبلیوں کا راگ سنائی دیتا رہا ہے۔ یقینا موجودہ حکومت بنانے میں ماضی کی وہی روایت اپنائی گئی ہے جو ہر دور میں اپنائی جاتی رہی ہے ماضی کی حکومتیں بھی خلائی مخلوق کی مرہون منت رہی ہیں اور موجودہ حکومت کے اقتدار میں بھی خلائی مخلوق کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یقینا 2018 کے عام انتخابات کی شفافیات پر سوالیہ نشان اپنی جگہ موجود ہے جس کو اپوزیشن سمیت حکومتی اتحادی بھی تسلیم کرتے ہیں اور بہت سے حلقوں پر حکومت کی جانب سے بھی انتخابات کی شفافیات پر اعتراضات اُٹھا ئے گئے ہیں جو اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ 2018 کے عام انتخابات غیر جانبدار شفاف نتائج سے محروم تھے۔
تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ پارلیمنٹ منتخب پارلیمنٹ ہے یا اس میں دھاندلی کی بنیاد پر بھی لوگ موجود ہیں اگر تو دھاندلی کے معاملے پر اپوزیشن سمیت حکومت کے بھی اعتراضات موجودہ ہیں تو پھر یہ پارلیمنٹ آئینی طور پر منتخب پارلیمنٹ نہیں ہے کیوں کہ ہمارے آئین میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلی کے رکن کا صادق و امین ہونا لازمی ہے اگر دھاندلی کی بنیاد پر کوئی بھی فرد منتخب ہوتا ہے تو کیا وہ صادق و امین سمجھا جاسکتا ہے؟ یقینا موجودہ اسمبلی میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو شفاف نتائج کی بنیاد پر پارلیمنٹ کا حصہ ہیں اور ایسے بااثر افراد بھی اکثریت سے اس پارلیمنٹ کا حصہ ہیں جو گائوں دیہات کے لوگوں سے زور زبردستی کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرتے ہیں جن کو منتخب کہنا شاید درست نہ ہوگا ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے ہم ہر روز پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کے مناظر دیکھ کر شرمندہ ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ غریب عوام کے مسائل کو حل کرنے میں ہر دور میں ناکام رہی ہے کیوں کہ کروڑوں روپے خرچ کر کے الیکشن لڑانے والے یا دھاندلی کی بنیاد پر منتخب ہونے والے یہ افراد کیسے غریب عوام کے مسائل کو حل کرنے اور ملک وقوم کے ساتھ مخلص ہوسکتے ہیں یہ ذمے داری ہمارے الیکشن کمیشن کی ہے جو بغیر تحقیقات کے کسی بھی فرد کو الیکشن لڑانے کی کھلی اجازت دے کر اپنے منصب سے اور اس ملک و قوم سے ناانصافی کا مرتکب ہوتا رہا ہے۔ہم نے اس سے قبل بھی ذکر کیا تھا کہ اگر حکومت عوامی مسائل کے حل پر نااہلی نالائقی کا مظاہر کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو مضبوط مستحکم رکھ سکتی ہے تو پھر اپوزیشن کا اس ملک کی سیاست اور پارلیمنٹ میں وجود بے معنی ہے اگر موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے ڈیڑھ سال میں ناکام نظر آتی ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ 22 سال کی جدوجہد کے بعد خان صاحب پہلی بار اس ملک کے اقتدار پر براجمان ہوئے ہیں ان سے غلطیوں کی اُمید کی جاسکتی ہے مگر اپوزیشن سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ پہلی بار اپوزیشن کا حصہ ہیں ن لیگ پیپلز پارٹی جو حزب اقتدار کا حصہ بھی رہی اور حزب اختلاف کا بھی حصہ رہ چکی ہیں اور حیران کن بات تو یہ کہ اس بار یہ دونوں برسر اقتدار رہنے والی جماعتیں اپوزیشن کا حصہ ہیں۔ مگر افسوس کے ساتھ یہ اپوزیشن تو چوہے کی مانند ثابت ہورہی ہے جو نیب کے خوف سے بلوں میں چھپتی پھر رہی ہے ان کا عوامی مسائل کے حل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اس وقت تمام اپوزیشن ریلیف کی منتظر ہے اپوزیشن لیڈر کی لندن میں بیٹھک، بلاول کی غیر سنجیدہ سیاست، مولانا صاحب کی بے بسی نے مسائل زدہ عوام کو بڑا مایوس کیا ہے ساتھ ہی موجودہ حکومت کی عوام دشمنی میں حصہ دار حکومتی اتحادی جماعتیں جو صرف اپنے ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر حکومت کا سہارا بنی ہوئی ہیں ان کے ووٹر ان سے مایوس ہیں۔
یقینا اس وقت ملک معاشی دفاعی سیاسی بحران کی زد میں ہے جس سے نکلنا آسان نہیں ہے مگر یہ بات طے ہے کہ خان صاحب کے اقتدار کو کم ازکم اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ہے البتہ وزیر اعظم جو ریاست مدینہ کی طرز پر پاکستان کو بنانا اور چلانا چاہتے ہیں وہ سب سے پہلے بنیادی عوامی مسائل پر توجہ دیں تاکہ 72 برس سے یہ مسائل زدہ قوم اپنے مسائل کو حل ہوتا دیکھ سکے مسلسل ڈیڑھ سال سے ہر روز اشیا ضرورت بجلی گیس کی قیمتوں میں ہوش روبا اضافہ کیا جارہا ہے یہ کہہ کر کہ اب اچھا وقت شروع ہونے والا ہے، آپ کو گھبرانہ نہیں ہے ان الفاظ کی بنیاد پر عوام کو تسلی دی جارہی ہے مگر سب اچھا ہوتا نظر نہیں آرہا اگر وزیر اعظم جو اپنی جماعت میں صادق و امین سمجھے جاتے ہیں اگر عوام کا توڑا بھی درد رکھتے ہیں تو مہنگائی کے سونامی پر قابو پانے کے لیے فوری قدم اُٹھائیں۔ ساتھ ہی اس ملک کی پارلیمنٹ پر جعلی سلیکٹڈ ہونے کے الزامات کی شفاف غیر جانبدار تحقیقات کرائیں اور جو لوگ چاہے وہ آپ کی جماعت سے ہوں یا اپوزیشن سے ان کو فوری پارلیمنٹ سے رخصت کیا جائے تاکہ ملک میں آئینی طریقے سے عوام کے منتخب نمائندے عوامی ووٹ سے اس پارلیمنٹ کا حصہ بن کر عوام کی خدمت کر سکیں۔ دوسری جانب اگر ن لیگ پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن کی جس جماعت کو بھی یہ یقین ہے اور وہ اس قوم کے ساتھ جھوٹ نہیں بول رہے اور وہ یہ قبول کرتے ہیں کہ یہ وزیر اعظم سلیکٹڈ ہے یہ اسمبلی جعلی ہے تو پھر کس منہ سے اس پارلیمنٹ کا حصہ رہ کر بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات حاصل کر رہے ہیں اگر یہ نظام جعلی سلیکٹڈ ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو خدارا اس ملک و قوم پر رحم فرمائیں اور مثبت اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے اس ملک و قوم کے مسائل کو حل کرانے میں اپنا موثر کردار ادا کریں تاکہ کل عوام آپ کو اقتدار کی کرسی پر براجمان کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔۔۔