یہ ستارے کا ایک ٹھوس نمونہ ہےجو پچاس سال قبل 1969 میں ایک شہاب ثاقب کے ذریعے آسٹریلیا کی زمین پر گرا تھا لیکن وسائل کی کمی کے باعث اس کی عمر کا تعین نہیں کیا جاسکا تھا۔
محققین نے امریکہ کے ایک سائنسی جریدے پروسیڈنگز آف نیشنل اکیڈمی آف سائنس (پی این اے ایس) میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں انکشاف کیا ہے کہ یہ دھات دراصل ستارے کا ایک جز ہے جو پانچ سے سات ارب سال پہلےایک ستارے کی موت سے وجود میں آیا تھا۔ معروف محقق ہیک کا کہنا ہے کہ دنیا میں یہ اب تک کی سب سے قدیم ترین دھات دریافت ہوئی ہےجس کےآثارسورج کی پیدائش سے بھی پہلے کے ہیں۔
ستاروں کے اجزاء، جنہیں انگریزی میں اسٹار ڈسٹ کہا جا تا ہے، ستاروں کی دو ارب سال کی زندگی کے بعد موت کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں جو دراصل ستارے کی باقیات کے ٹھوس نمونے ہوتے ہیں۔
حال ہی میں محقق ہیک اور دوسرے ساتھیوں نے ان شمسی دھاتوں کی تاریخ جاننےکے لئے ایک نیا طریقہ استعمال کیا ہے جس میں خلاء میں کائناتی شعاعوں کے باعث اسٹار ڈسٹ میں ہونے وانے والی تبدیلیوں کی شناخت کر کے ان کی عمر کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ اس نئی تکنیک کی مدد سے زمین پر پائے جانے والے قدیم ترین ٹھوس مادوں کی شناخت کی جاسکتی ہے۔
خیال رہے کہ ایک دہائی قبل صرف 20 شمسی دھاتوں کی عمر کا تعین کیا گیا تھا تاہم اب سائنسدان 40 مختلف شمسی دھاتوں کی عمر کا تعین کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جن میں سے بیشتر کی عمریں 4.6 ارب اور 4.9 ارب سال کے درمیان ہیں۔