جنرل سلیمانی اور سلیمانی ٹوپی

411

عباس عالم
گزشتہ ایک ہفت سے مغربی دنیا کے عوام گوگل پہ کیا تلاش رہے تھے؟؟ ظاہر ہے وہ جنرل سلیمانی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتے تھے اور انہی کا نام سرچ کر رہے تھے۔ کیونکہ مغربی عوام کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ کوئی واقعہ ہونے کے بعد اس واقعے سے جڑ ی شخصیات کی کھوج میں نکل جاتے ہیں۔ مختلف شخصیات کی زندگیوں سے انہیں خاص دلچسپی ہے۔ اس لیے مغرب میں طرح طرح کے حوالوں سے سوانح حیات شائع ہوتی رہتی ہیں۔ خیر۔ اب جنرل سلیمانی کے معاملے میں مسئلہ یہ ہوا کہ گوگل کے پاس سرچ کے جواب میں دکھانے اور بتانے کے لیے کچھ زیادہ مواد میسر نہیں تھا اور کچھ مواد تھا بھی تو کسی اور زاویے سے تھا یعنی اس میں جنرل سلیمانی کی سپاہیانہ زندگی کے بجائے ان کی مذہبی اور معاشرتی زندگی پر زیادہ روشنی ڈالی گئی تھی۔ اور ظاہر ہے مغربی عوام یہ تلاش نہیں کر رہے تھے۔ اس لیے ان کی تلاش ذرا بے سود سی ہو کر رہ گئی۔ اب صاحب گوگل پر صارفین کچھ تلاش کریں اور اْن کو نہ ملے تو ظاہر ہے چند گھنٹوں میں یہ بات پہلے گوگل کو اور پھر میڈیا ہاؤسز کو معلوم ہو جاتی ہے۔ سو پلک جھپکتے میڈیا کو پتا چل گیا کہ لوگ کیا تلاش کر رہے ہیں اور یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ دلچسپ اور ڈرامائی مواد تلاش کر رہے ہیں۔ اگر یہ سنسنی خیزمواد حسب خواہش دستیاب نہیں ہے تو چلیں کہیں نہ کہیں سے استفادہ کرکے تخلیق کر لیتے ہیں۔ میڈیا کے تیس مار خانوں نے سوچا۔ اور برق رفتاری سے کام شروع کردیا گیا۔ میڈیا نے اپنے نمائندوں سے فوراً مواد تلاش کرکے اس کی بنیاد پر کہانیاں بنانے کے لیے اسائنمنٹ جاری کردیے۔ رائٹرز نے اور گہرائی سے سرچ کرنا شروع کر دیا۔ پھر ماضی کے رسالوں کے ریکارڈ کی چھان بین بھی شروع کردی کافی بھاگ دوڑ کے بعد انہیں انیس سو چودہ میں فرانس سے شائع شدہ کارل شیرو کا مضمون مل گیا۔ صحافیوں نے اس مضمون میں درج شدہ حقائق سے استفادہ کیا اور اس مضمون کو بنیاد بناتے ہوئے انکشاف کیا کہ جنرل سلیمانی کی عرفیت سپر مین تھی کیونکہ وہ کسی بھی محاذ سے اچانک اس طرح غائب ہو جاتے تھے جیسے سلیمانی ٹوپی پہن لی ہو۔ صرف یہی نہیں مضمون میں اور بھی انکشافات کیے گئے تھے جو حیرت انگیز تھے۔ کچھ ناقابل یقین سے بھی تھے لیکن کیونکہ یہ مضمون فرانس کے اخبار میں شائع ہوا تھا۔ تھی اس لیے اکثر مضمون نگاروں نے اس سے بلاتکلف استفادہ کر لیا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ بات ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی تو اسی طرح یہ خبر یا مضمون پھیلتا چلا گیا۔ میڈیا سے سوشل میڈیا تک پہنچا۔ سوشل میڈیا سے عوام تک پہنچا عوام سے حلقہ بالا کے افسران تک پہنچا اور پھر آٹھ دس گھنٹوں کے اندر اس مضمون کے مندرجات ہر جگہ پھیل گئے۔ سی این این کے ایک مبصر نے ایک معروف ٹاک شو میں اس مضمون کو اتنی بار دہرایا کہ خود امریکی بیوروکریٹس بھی اس کے حوالے دیتے پائے جانے لگے۔ ابھی یہ سب شورشرابا اور غلغلہ چل ہی رہا تھا کہ اچانک اس مضمون کے اصل رائٹر یعنی کارل شیرو نے ٹوئٹر کے ذریعے انکشاف کیا کہ بھائی صاحب یہ مضمون کوئی حقیقی مضمون نہیں ہے بلکہ میں نے ایک مزاحیہ خاکہ لکھا تھا۔ کارل شیرو نے کہا کہ انہوں نے یہ مضمون سلیمانی کے بارے میں پائی جانے والی طلسماتی خبروں کے جواب میں طنزیہ طور پر تحریر کیا تھا۔ اور اس کے مندرجات کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ سو فی صد فرضی اور تخیلاتی ہیں۔
اب یہ بے تکا انکشاف اس موقع پر بالکل بے محل تھا۔ اس لیے مغربی میڈیا نے اس ٹویٹ کی خبر کو دبا دیا اور اسی افسانوی بات کو آگے بڑھاتا چلا گیا۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر کوئی خبر متعدد بار نیوز چینل سے نشر ہوجائے۔ اس پر کئی مرتبہ تبصرے ہوجائیں تو پھر خبر چاہے مکمل افسانہ ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ حقیقت لگنے لگتی ہے۔ عوام کا ایک بڑا حصہ اس کو حقیقت ہی تصور کرتا ہے کیونکہ اس خبر کے بعد آنے والی ذیلی تردیدی خبریں سب تک نہیں پہنچتیں۔ اس خبر کے ساتھ بھی شاید یہی ہوتا اور یہ وقت کی منوں مٹی تلے دفن ہو جاتی لیکن روسی اور چینی میڈیا نے فوراً نہیں تو ایک دو روز بعد اس ٹویٹ کو دیکھ لیا۔ جس میں کارل شیرو نے اس مضمون کے فرضی ہونے کا انکشاف کیا تھا اور پھر مغربی میڈیا اس خبر کے جعلی پن کو مکمل طور پردبا نہیں سکا۔ لیکن مغربی میڈیا نے خبر کی تردید بھی نہیں کی کیونکہ وہ موقع مغربی میڈیا کو بے توقیر کرنے کا ہرگز نہیں تھا۔ سو وہ خبر اور اس سے ملتے جلتے مضامین اور سرخیاں اسی انداز میں پھیلتے چلے گئے کیونکہ چینی اور روسی میڈیا کی رسائی جتنی بھی ہو مغربی میڈیا کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ اس لیے دنیا بھر کے بہت سے تجزیہ نگار سلیمانی کو سپرمین اور اس طرح کے دوسرے القابات سے نوازتے رہے۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس سارے تذکرے سے ہمارا مقصد ہرگز یہ ثابت کرنا نہیں ہے کہ مغربی میڈیا کے پاس خبر نہیں ہوتی یا انہیں اصل واقعات کی تفصیل معلوم نہیں ہوتی۔ بہت دفعہ ان کو تفصیل معلوم ہوتی ہے لیکن وہ تفصیل جو معلوم ہوتی ہے اور وہ کہانی جو سنائی جاتی ہے۔۔۔ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اصل خبر اپنی بات اور اپنے ملک کی پوزیشن کو طاقتور کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے اور سنانے کے لیے صرف کہانی ہوتی ہے۔ اور ہم ان افسانوں کو حقیقت سمجھ کر دانشوری کے زعم میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ تہِ در تہِ ہے۔ اور اس بحر کی تہِ سے آخر میں جو اُچھلنا ہے کسی کو نہیں معلوم۔۔ تو صاحب دیکھیے بحر کی تہِ سے کیا اچھلتا ہے۔۔ دیکھنا تو لازم ہے۔ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔