ملکی ترقی کا راز : لسانی و گروہی سیاست کے خاتمہ

385

سید محمد اشتیاق
جب بھی کوئی ایسی تحریر پڑھنے کو ملے جس میں کسی بھی قوم کو لعن طعن کی جا رہی ہو اور مشورے دیے جا رہے ہوں کہ تم اس قوم میں ضم ہو جاؤ تو حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوتا ہے کہ ہم اس بد قسمت ریاست کے بد قسمت شہری ہیں۔ جس کے قیام کو 7 دہائیاں گزر گئی ہیں۔ لا تعداد سانحات و حادثات اور افسوس ناک واقعات کا سامنا ریاست کے شہری کر چکے ہیں۔ لیکن ایک قوم بننے میں ناکام رہے ہیں۔ گو کہ میری پیدائش و رہائش کا شہر کراچی ہے۔ لیکن وطن عزیز کے چپے چپے سے مجھے دلی لگاؤ اور انسیت سی محسوس ہوتی ہے۔ وطن عزیز میں رہنے والے کسی بھی شہری سے زبان و ثقافت کے لحاظ سے نفرت اور تعصب کے تصور ہی سے گھن آتی ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کے توسط سے آئے روز ایسی تحریریں نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ جن کو پڑھ کر دکھ ہوتا ہے۔ ایسی تحاریر اور پوسٹس پر اپنی رائے کا اظہار کرنے سے حتی الامکان اجتناب کرتا ہوں۔
نجی مصروفیات کی وجہ سے ان دنوں دفتر سے رخصت لی ہوئی ہے۔ گھر کے کاموں مصروف تھا اور ایک کتاب کی بھی تلاش میں تھا، جو ایک عرصے سے نظروں سے اوجھل ہے۔ کتاب تلاش کر رہے ہوں تو جو بھی کتاب ہاتھ میں آتی جاتی ہے۔ اس سے کچھ چگ لینے کو بے اختیار دل کرتا ہے۔ یہی کام ہو رہا تھا کہ ایک کتاب سے بچوں کی پرانی تصویر ملی۔ تصویر کو موبائل میں محفوظ کیا اور بچوں کو واٹس ایپ کر دی۔ تصویر دیکھتے ہی چھوٹا بیٹا بہت خوش ہوا اور بچپن کی مزید تصویروں کی تلاش میں سرگرداں ہوگیا۔ پرانی البمز نکالی گئیں اور سب تصویریں دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے کہ ایک البم میں چھوٹے سے لفافے میں بہت پرانی تصویریں برآمد ہوئیں۔ پرانی تصویریں امی کے البمز سے کسی زمانے میں نکالی گئیں تھیں، جو واپس لگنے سے رہ گئیں تھیں۔ تصویریں دیکھنا فوراً ترک کیا اور الماری کی طرف دوڑ لگائی۔ البمز نکالیں اور جس صفحے کی جو تصویر تھی۔ اس کو وہیں پر چسپاں کردیا۔ البمز تو بہت پرانی ہیں۔ لیکن بہت سلیقے اور قرینے سے امی نے تصویریں ان البمز میں محفوظ کی ہوئی ہیں۔ ایک صفحے پر میری تصویریں بھی ہیں۔ ان میں سے ایک تصویر بھی پوسٹ کی ہے۔ وجہ تحریر وہی تصویر ہے، جو پوسٹ کی گئی ہے۔ تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ میں ایک لڑکے کے کندھے پر سوار ہوں اور تصویر کی پشت وہ تاریخ بھی درج ہے۔ جب وہ تصویر کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کی۔ تاریخ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ تصویر جنرل ایوب خان اور مادر ملت کے مابین صدارتی انتخاب کے چند دن بعد کی ہے۔ اس زمانے میں شہر کراچی میں لسانی بنیادوں پر کشیدگی عروج پر تھی۔ یہ صدا اردو اسپیکنگ شہریوں کے کان سے دسمبر 1964 میں ٹکرا چکی تھی کہ ’’آپ تو بھاگ کر یہاں آئے ہیں، یہاں سے کہاں جائیں گے؟ آگے سمندر ہے‘‘۔ یہ الفاظ ادا کرنے کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی تھی۔ چونکہ کراچی کے شہری صدارتی انتخاب میں جنرل ایوب خان کے بجائے، مادر ملت کی حمایت پر کمر بستہ تھے۔
جنرل ایوب خان صدارتی انتخاب تو جیت گئے۔ لیکن بحیثیت فوجی آمر صدارتی انتخاب کے لیے انہوں نے جو مذہب اور قوم و نسل کی مکروہ سیاست کا آغاز کیا۔ ان اوچھی و مکروہ سیاسی روایات کی ترویج ان کے بعد آنے والے فوجی آمر دھڑلے سے کرتے رہے۔ اور اب تو یہ صورت حال ہے کہ قبل و بوقت عام انتخابات رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر انتخابی اتحاد قائم ہوتے ہیں اور تشکیل حکومت کے وقت بھی یہی عنصر سر چڑھ کر بولتا ہے۔ گزشتہ روز بھی بلاول زرداری نے ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔ اور اب اس پیش کش پر سیاست اور بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے۔ وفاقی اور قومی سیاست کے بجائے لسانی، علاقائی اور گروہی سیاست کے فروغ سے وطن عزیز کا بیڑا ہی غرق ہوا ہے۔ ریاست کے شہریوں کی اکثریت وطن عزیز کے موجودہ حالات سے پریشان اور رنجیدہ ہے۔ اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقات اور غریبوں کا وہی حال ہو رہا ہے اور ہوا ہے۔ جیسے سبز علی کے ساتھ ہوا۔ سبز علی نامی پشتو اسپیکنگ لڑکے کو امی نے گھر کے اندرونی و بیرونی کام اور میری دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھا تھا۔ شہر کراچی میں 1965 کے صدارتی انتخاب کے بعد لسانی فسادات پھوٹے تو محلے اور پڑوس والوں کی نگاہ میں سبز علی نامی نو عمر لڑکا بھی آ گیا۔ محلے پڑوس سے امی اور پاپا مرحوم پر دباؤ بڑھنے لگا کہ سبز علی کو ملازمت سے نکالیں۔ لیکن امی اور پاپا مرحوم نے اس مطالبے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ جب ملازمت سے برخواستگی کا مطالبہ کرنے والوں کی دال کسی بھی طرح نہ گلی تو دادا ابا مرحوم سے کہا گیا کہ سبز علی آپ کے پوتے کو پشتو اسپیکنگ افراد کے جلسوں میں لے کر جاتا ہے۔ اس شکایت پر سبز علی کی ملازمت کا اختتام ہوا۔ لیکن وہ گاہے گاہے ایک عرصے تک مجھ سے ملنے کرنے آتا رہا۔