امریکا ایران تعلقات کو سمجھنے کے لیے

645

امریکا کے ممتاز دانش ور نوم چومسکی امریکا کو ’’بدمعاش ریاست‘‘ قرار دیتے ہیں۔ نوم چومسکی کی یہ بات غلط نہیں ہے۔ امریکا نے اتنے بڑے پیمانے پر انسانوں کا قتل عام کیا ہے کہ انسانی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ امریکیوں نے ’’Americas‘‘ میں دس کروڑ ریڈ انڈینز کو مار ڈالا۔ انہوں نے کوریا کی جنگ میں 30 لاکھ انسانوںکو قتل کیا۔ امریکی ویت نام میں جاگھسے اور دس سال میں 20 لاکھ ویت نامیوں کو ہلاک کردیا۔ امریکا نے گزشتہ 19 سال میں عراق، افغانستان اور دیگر مسلم ملکوں میں 13 لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عراق میں امریکا کے ہاتھوں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کا قتل ایک معمولی واقعہ ہے۔ لیکن بہرحال اس واقعے سے بھی یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ امریکا کسی بین الاقوامی قانون اور اخلاقی ضابطے کا قائل نہیں۔ اس کے جو جی میں آتا ہے کر گزرتا ہے۔ ملائیشیا کے وزیراعطم مہاتیر محمد نے جنرل سلیمانی کے قتل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جہاں کسی کو محض اختلاف کی بنیاد پر ڈرون بھیج کر قتل کیا جاسکتا ہے۔ مہاتیر محمد کی بات غلط نہیں لیکن جنرل سلیانی کا قتل کوئی ’’نئی بات‘‘ نہیں۔ اسرائیل مقبوضہ فلسطین میں حماس کے دو رہنمائوں شیخ یٰسین اور عبدالعزیز رنتیسی کو قتل کرچکا ہے۔ حماس کے رہنما خالد مشعل کو دو اسرائیلی جاسوسوں نے زہر دے دیا تھا۔ اتفاق سے وہ بروقت پکڑ لیے گئے اور اسرائیل کو زہر کا توڑ مہیا کرنا پڑ گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکا نے جنرل سلیمانی کو کیوں قتل کیا ہے؟۔
اس سوال کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ امریکا اور ایران کی کشمکش پرانی ہے۔ ایران کے انقلاب کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے اور یہ کشیدگی کافی عرصے تک باقی رہی لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکا اور ایران مشرق وسطیٰ میں ’’خفیہ اتحادی‘‘ بن کر اُبھرے۔ بلاشبہ افغانستان میں سب سے زیادہ گہرے اثرات پاکستان کے ہیں۔ چناں چہ نائن الیون کے بعد امریکا نے دھمکی کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کی حمایت حاصل کی لیکن ایران بھی افغانستان کے اہم کھلاڑیوں میں سے ایک ہے۔ چناں چہ امریکا ایران کو اعتماد میں لیے بغیر افغانستان میں نہیں آسکتا تھا۔ خیر افغانستان کے حوالے سے تو شک و شبے کا اظہار بھی کیا جاسکتا ہے مگر عراق میں امریکا کی آمد ایران کے سو فی صد خاموش تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔ اس لیے کہ عراق شیعہ اکثریت کا ملک تھا اور عراق میں ایران کے اتنے گہرے اثرات تھے کہ اگر ایران عراق میں امریکا کی مزاحمت کرتا تو امریکا اول تو عراق میں آتا ہی نہیں اور آتا بھی تو وہ چند ماہ سے زیادہ عراق پر قابض نہیں رہ سکتا تھا۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ عراق میں امریکا کی مزاحمت ان علاقوں میں ہوئی جنہیں سنی اکثریت کے علاقے کہا جاتا ہے۔ عراق کی شیعہ آبادی نے صدام حسین سے نجات کے لیے امریکا جیسی غاصب قوت کا ساتھ دیا۔ بدقسمتی سے ’’انقلابی‘‘ کہلانے والا ’’امریکا مخالف‘‘ ایران بھی عراق میں امریکی مداخلت کی خاموش حمایت کرتا نظر آیا۔ حق و باطل کی کشمکش ہر حال میں حق و باطل کی کشمکش ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ باطل میری یا میرے فرقے کی حمایت کرنے لگے تو میرے لیے وہ اچانک ’’باطل‘‘ سے ’’حق‘‘ میں تبدیل ہوجائے اور میں اسے سینے سے لگالوں یا اس کے ظلم پر خاموش ہو کر بیٹھ جائوں۔ بدقسمتی سے امریکا نے عراق میں مداخلت کی تو ایران کے لیے حق و باطل کا معیار بدل گیا اور اس نے عراق کے خلاف امریکی جارحیت کی رّتی برابر بھی مزاحمت نہ کی۔ عراق کے شیعہ اور سنی مل کر امریکا کے خلاف جنگ آزادی لڑتے اور ایران ان کی پشت پناہی کرتا تو عراق امریکا کا جہنم بن جاتا مگر یہ تو مشرق وسطیٰ میں امریکا اور ایران کے خفیہ اتحاد کا آغاز تھا۔
شام میں بشارالاسد کی حیثیت تقریباً وہی تھی جو ایران میں شاہ کی تھی۔ جس طرح امام خمینی کی قیادت میں ایران کے لوگ شاہ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اور انقلاب برپا کردیا۔ ٹھیک اسی طرح بشارالاسد کے ظلم، درندگی، نااہلی اور لوٹ مار کے خلاف بھی شام کے لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ مزاحمت بڑے شہروں سے شروع ہو کر چھوٹے شہروں یہاں تک کہ شام کے دیہات میں بھی پھیل گئی۔ انقلابی ایران کا فرض تھا کہ وہ اس مزاحمت
کی حمایت کرتا۔ مگر بدقسمتی سے ایران نے شام کی داخلی کشمکش میں ’’انقلابیوں‘‘ اور ’’جہادیوں‘‘ کا ساتھ دینے کے بجائے غاصب، آمر، ظلم، قاہر، شاطر، عالمی طاقتوں کے مہرے اور Status Quo کی علامت بشارالاسد کا ساتھ دیا۔ ایران خود کو امام حسینؓ کے ورثے کا امین کہتا ہے مگر اس نے شام میں ’’یزید وقت‘‘ بشار الاسد کا ہاتھ تھاما۔ ہاتھ تھامنے کی بات بھی پوری طرح صحیح نہیں اس لیے کہ ایران نے شام میں بشارالاسد کے اقتدار کو بچانے کے لیے اپنی فوج اُتار دی۔ بشارالاسد نے شام میں پانچ لاکھ شامیوں کو مار ڈالا۔ اس قتل عام میں ایران اور جنرل سلیمانی کا بھی حصہ ہے اور تاریخ اس حوالے سے کبھی ایران اور جنرل سلیمانی کو کبھی معاف نہیں کرے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران اور جنرل سلیمانی نے بشارالاسد کا ہاتھ پکڑنے کے بجائے اس کی ہلاکت آفرینی میں اضافہ کیا۔ بشارالاسد کے ظلم و زندگی سے صرف پانچ لاکھ شامی ہلاک ہی نہیں ہوئے 50 لاکھ سے زیادہ شامی جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے۔ 70 لاکھ سے زیادہ شامی اپنے ہی ملک میں جلاوطن ہوگئے۔ ہزاروں شامی خواتین کی عصمتیں پامال ہوئیں اور ہزاروں بچے اپنے والدین سے بچھڑ گئے۔ ایران اور جنرل سلیمانی ان جرائم میں بھی برابر کے شریک ہیں۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جس طرح عراق میں امریکا اور ایران ایک دوسرے کے خفیہ اتحادی بن کر سامنے آئے۔ اس طرح شام میں بھی امریکا نے ایران کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے میں رَتی برابر دلچسپی نہیں لی۔ یہ حقیقت ہمارے سامنے ہے کہ مقبوضہ کشمیر اصولی اعتبار سے پاکستان کا علاقہ ہے۔ پاکستان اگر مظلوم کشمیریوں کی مدد کے لیے مقبوضہ کشمیر میں فوج بھی اُتار دے تو یہ ’’قابل فہم‘‘ بات ہوگی مگر امریکا اور یورپ کے لیے تو یہ بھی قابل قبول منظر نہیں کہ پاکستان کے لوگ مظلوم کشمیریوں کی مدد کے لیے جائیں۔ البتہ ایران کے جرنیل اس کے فوجی اور اس کے رضا کار شام میں لڑ رہے ہیں مگر اس بات پر نہ امریکا کو اعتراض ہے نہ یورپ کو۔ اس امر پر نہ روس پریشان ہے نہ چین۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت راز نہیں کہ امریکا نے ایران کو مشرق وسطیٰ کی بڑی طاقت بنانے میں اہم مگر ’’خاموش کردار‘‘ ادا کیا ہے۔ بدقسمتی سے اس امر سے بھی یہی شہادت ملتی ہے کہ امریکا اور ایران ’’خفیہ اتحادی‘‘ ہیں۔ یہ حقیقت اتنی عیاں ہے کہ عقل کا اندھا اور ایران کا ایجنٹ ہی اس کا انکار کرسکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکا نے ایران کو خطے کی اہم طاقت کیوں بنایا ہے؟ یہ حقیقت راز نہیں کہ امریکا نے ایران کی طاقت کو عربوں بالخصوص سعودی عرب کے لیے ایک ’’خوف‘‘ بنادیا ہے۔ اس خوف کے ذریعے اب تک امریکا سعودی عرب کے ساتھ 300 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کرچکا ہے اور مستقبل میں وہ سعودی عرب سے زیادہ بڑی رقم ہتھیانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کھلے عام عرب حکمرانوں کو مخاطب کرکے فرما چکے ہیں کہ تمہارا اقتدار ہماری حمایت پر کھڑا ہے۔ ہم تمہارا تحفظ نہ کریں تو تمہارا اقتدار ہفتوں میں ختم ہوسکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کا باطن ہے۔ یعنی انہیں تہذیب چھو کر بھی نہیں گزری ورنہ جو بات انہوں نے کہی وہ ان سے پہلے بھی امریکا کا کوئی صدر کہہ سکتا تھا۔
یہ امر راز نہیں ہے کہ امریکا نے چند دن میں طالبان اور چند دن میں صدام کی حکومت گرادی تھی۔ چناں چہ وہ چند روز میں بشارالاسد کی حکومت بھی گرا سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ حالاں کہ امریکا نے بشارالاسد پر یہ سنگین الزام بھی لگایا کہ اس نے اپنے لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں۔ ایسا نہ کرنے کے دو اسباب تھے۔ ایک یہ کہ بشارالاسد کی حکومت گرتی تو اس کی جگہ ’’اسلام پسند سنی‘‘ اقتدار میں آجاتے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ایران کے لیے خطے کی بڑی طاقت بننا ممکن نہ رہتا۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ امریکا نے جنرل سلیمانی کو عراق میں ہلاک کیا۔ امریکا اور ایران خفیہ اتحادی نہ ہوتے تو کیا جنرل سلیمانی کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ بلاخوف و خطر عراق میں موجود ہوتے؟ جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد عراق کی قومی اسمبلی نے امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی فوجیں عراق سے نکال لے۔ سوال یہ ہے کہ امریکا اور ایران خفیہ اتحادی نہیں تھے تو عراق کی اسمبلی نے یہ مطالبہ پہلے کیوں نہیں کیا؟ تو کیا جنرل سلیمانی کے قتل سے امریکا اور ایران کا خفیہ اتحاد ختم ہوگیا ہے؟ اس سوال کا جواب اس ردعمل میں پوری طرح موجود ہے جس کا اظہار ایران نے جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد کیا ہے۔
باقی صفحہ7نمبر1
شاہنواز فاروقی
ایران مشرق وسطیٰ میں نصف درجن سے زیادہ مقامات پر امریکا کو جانی نقصان سے دوچار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر اس نے عراق میں امریکا کے دو فوجی ٹھکانوں کو اس طرح نشانہ بنایا کہ ایران کے حملے سے نہ امریکا کا کوئی جانی نقصان ہوا نہ بڑا مالی نقصان ہوا۔ کیا ’’انتقام‘‘ اس طرح لیا جاتا ہے؟ مغربی ذرائع ابلاغ نے یہ اطلاع بھی عام کردی ہے کہ ایران نے حملے سے قبل عراق کی حکومت کو مطلع کردیا تھا کہ وہ کہاں حملہ کرنے والا ہے۔ عراق کی حکومت نے ایران کی فراہم کردہ اطلاع امریکا کو مہیا کردی۔ چناں چہ امریکا کسی بھی جانی نقصان سے محفوظ رہا۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ اس کے حملے سے امریکا کے 80 فوجی ہلاک ہوئے۔ مگر یہ ’’اطلاع‘‘ لا علم ایرانی عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ایران کا جوابی ردعمل ٹھیک ویسا ہی تھا جیسا کہ ایک ’’خفیہ اتحادی‘‘ کا ردعمل ہونا چاہیے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پھر امریکا نے جنرل سلیمانی کو کیوں قتل کیا؟ اس کی صرف دو ہی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ جنرل سلیمانی امریکا کے مفادات کو واقعتا کوئی بڑا نقصان پہچانے والے تھے، اس سے بہتر توجیہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ’’عوامی امیج‘‘ یہ ہے کہ انہوں نے معیشت کو تو بہترین طریقے سے چلا کر دکھا دیا مگر وہ ’’قومی سلامتی‘‘ کے سلسلے میں زیادہ باشعور اور موثر نہیں ہیں۔ چناں چہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جنرل سلیمانی کو قتل کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ قومی سلامتی کو بھی خوب سمجھتے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ وہ قومی سلامتی کا تحفظ بھی کرسکتے ہیں۔