بھارت خود کو سنبھالے

402

جاوید الرحمن ترابی
بھارتی فوج کے سربراہ جنرل منوج مکند نروانے نے کہا کہ پاکستانی سرحد سے متصل مغربی سرحدوں پر اپاچی ہیلی کاپٹرز تعینات کیے جائیں گے، ہیلی کاپٹر تعیناتی کا فیصلہ پاکستان کی جانب سے دراندازی کے بڑھتے خطرات کے پیش نظر کیا گیا ہے، پاکستان سے دراندازی کی صورت میں آزاد کشمیر میں کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔ اس علاقہ میں مسلح افواج بھی تعینات ہیں۔ یہاں پر دراندازی کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ ساوتھ ایشین وائر کے مطابق انہوں نے پھر سے کہا کہ اگر حکومت ہند نے اجازت دی تو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر بھی کارروائی کی جائیگی۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے کشمیریوں پر بدستور مظالم اور درندگی کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید کیے جانیوالے تین کشمیریوںکو سپرد خاک کر دیا گیا۔ تینوں کے جنازے میں ہزاروں افراد نے کرفیو توڑ کر شرکت کی اس موقع پر بھارت کیخلاف اور آزادی کے حق میں زبردست نعرے لگائے گئے۔ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم شہری 164روز سے فوجی محاصرے میں ہیں‘ موبائل اور نیٹ سروس بند ہے‘ اس صورتحال میں کشمیریوں کی مشکلات بہت بڑھ گئی ہیں‘ وادی میں ضروریات زندگی کی شدید قلت ہے جبکہ ادویات بھی دستیاب نہیں۔ اُدھر شہریت ترمیمی بل کیخلاف پورے بھارت میں احتجاج‘ مظاہرے‘ جلائو گھیرائو سے بھارت میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ بھارت جب بھی اندرونی خلفشار کا شکار ہوتا ہے یا عوام دشمن پالیسیوں کیخلاف لوگ احتجاج کا علم بلند کرتے ہوئے کاروبار ریاست اور سیاست بند کرنے پر تل جاتے ہیں تو بھارتی حکمران ان کیخلاف ظلم کا ہر ضابطہ آزمانے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے۔ مہذب دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی قابل قبول نہیں اس لیے اپنے مقاصد کے لیے ظلم کے حربے کسی بھی حد تک لے جانے کو یہ حکمران بجا سمجھتے ہیں۔ پہلی کوشش میں ریاستی دہشت گردی کے حوالے سے اطلاعات ملک سے باہر جانے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے جس طرح مقبوضہ کشمیر میں 5؍ اگست کے بعد واٹر ٹائٹ کرفیو نافذ ہے۔ نو لاکھ سے زائد مہلک اسلحہ اور انسانیت کو شرما دینے والے پوٹا و ٹاڈا قوانین سے مسلح افواج نے کشمیریوں کو قید کی کیفیت میں رکھا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وادی میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور آزاد عالمی میڈیا کے داخلے پر سخت پابندیاں ہیں مگر جدید دور میں آپ ائر ٹائٹ کرفیو تو لگا سکتے ہیں، خبریں باہر نکلنے کے ذرائع مکمل طور پر بند نہیں کر سکتے اور پھر ایک محدود ایریا اور 80 لاکھ کی آبادی کو گھروں میں نو لاکھ فوج کی درندگی کے باعث نظربند رکھنا آسان ہے۔ ایسا ہی مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے۔ اس سب کے باوجود مقبوضہ وادی سے لیک ہونیوالی تھوڑی بہت خبروں سے بھی خوفناک صورتحال کا اظہار ہوتا ہے جس پر عالمی برادری کا شدید ردعمل آنا فطری ہے۔ ہمیشہ ایسی صورتحال میں دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے بھارت پاکستان کیخلاف عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے ڈرامے بازی کرتا آیا ہے۔
آج بھارت کے اندر متنازع شہریت ترمیمی بل کے خلاف اقلیتوں میں ہیجان پایا جاتا ہے۔ مسلمان بالخصوص اس بل کا نشانہ بنے اور تمام دیگر اقلیتیں اور ہندو اکثریت کا انسانیت کا درد رکھنے والا ایک بڑا حصہ بھی بل کیخلاف مظاہروں اور احتجاج میں شامل ہے۔ بھارتی دانشور‘ صحافی‘ اداکار‘ کھلاڑی اور کئی سیاسی شخصیات بھی اس بل کیخلاف سراپا احتجاج نظرآتے ہیں۔ بھارت میں اس متنازع بل کے باعث حالات بے قابو ہوچکے ہیں۔ ہر صوبے کی انتظامی مشینری مفلوج ہوچکی ہے۔ مودی حکومت اپنی ناکامی پر دیواروں سے سر ٹکرا رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے محدود علاقے اور مخصوص آبادی کی طرح 130 کروڑ لوگوں کے لیے وسیع و عریض ملک کو عقوبت خانہ بنانا ممکن ہے نہ ہی مظالم کو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھا جاسکتا ہے۔ لہٰذا بھارت کے لیے پاکستان پر الزامات لگا کر دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کی سازشیں رچائی جاتی ہیں۔ حالات میں مزید تیزی آئی تو بعید نہیں بھارت کے جنگی جنون کا جن بوتل سے باہر آجائے جس کی اس کی طرف سے تیاریوں اور دھمکیوں کے ساتھ ساتھ عملیت بھی سامنے آرہی ہے۔
دھمکیوں کی صورت میں سابق بھارتی آرمی چیف جنرل راوت اور موجودہ آرمی چیف جنرل منوج کے آزاد کشمیر میں بھی کارروائی کرنے کے بیانات شامل ہیں۔ کنٹرول لائن پر بھارت کی شرانگیزی میں اضافہ اسی تناظر میں نظر آتا ہے۔ ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری سے باڑ ہٹا کر اپنی طرف سے پیش قدمی کی راہ ہموار کی گئی ہے‘ بارڈر پر 50 ہزار بم پروف بنکر تعمیر کیے جارہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں فوجی نفری بڑھانے کے ساتھ ساتھ بارڈر پر بھی 2001ء کی طرح فوج تعینات کی جارہی ہے۔ پہلی مرتبہ لاہور کے قریب امرتسر میں جنگی طیارے تعینات کیے گئے ہیں، جنگی جنون میں مبتلا بھارتی حکومت نے پاکستان کی سرحد سے ملحقہ ہوائی اڈوں پر بھی جنگی طیارے اور بھاری ہتھیار پہنچا دیے ہیں۔ کنٹرول لائن پر اسرائیلی ساختہ اسپائیک اینٹی ٹینک میزائل بھیجنے کی تیاریاں بھی کی جارہی ہیں۔ میزائل بنکرز، شیلٹرز، کیمپوں اور ٹینکوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میزائلوں کو آزاد کشمیر میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جس کی دھمکی پرانے انداز میں نئے بھارتی آرمی چیف نے دی ہے۔
آج ایک بار پھر ہمیں 65ء کے ساتھ کارگل اور 2001ء کی تاریخ دہرانے کی ضرورت ہے۔13 دسمبر 2001ء کو پانچ شدت پسندوں نے بھارت کی پارلیمنٹ پر حملہ کیا تھا‘ حملے میں 12 لوگ مارے گئے تھے‘ بھارت نے الزام لگایا یہ لوگ پاکستانی ہیں‘ بھارتی حکومت نے یہ الزام لگانے کے ساتھ ہی پاکستان پر فوج کشی کی اعلانیہ تیاریاں شروع کردیں۔ پورے ملک سے بھارتی فوج کو سرحد تک آنے میں ایک ماہ لگ گیا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے ایک ماہ میں ساری جنگی تیاریاں کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی برادری سے بھی بات چیت کر لی۔ امریکا اور یورپ کو جنرل پرویز مشرف کی ضرورت تھی لہٰذا جنرل مشرف نے بھارتی تیاری کے ان چار ہفتوں میں عالمی برادری کو بھی موبلائز کر دیا‘ یورپ اور امریکا درمیان میں آ گئے۔ اقوام متحدہ نے بھی بھارت کو روکنا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی پاک فوج نے بھی بھارت کو للکارا۔ پاکستان نے اپنے میزائل اور ہتھیار بھی باہر نکال لیے‘ یہ تمام دبائو بنا اور بھارت بالآخر اس دبائو کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو گیا‘ بھارتی فوجیں پیچھے ہٹ گئیں‘ بھارت کو اس مشق کے دوران اربوں روپے کا نقصان بھی ہوا اور اسے جگ ہنسائی کا سامنا بھی کرنا پڑا بھارت کے جنگجوانہ عزائم جن کا مقصد دنیا کی توجہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی مخدوش صورتحال سے ہٹانا ہے‘ اس سے پاکستان دنیا کو آگاہ کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے گھوڑے بھی ان شاء اللہ پوری طرح مستعد اور تیار ہیں۔ پاک فوج قوم اور سیاسی قیادت متحد ہے‘ دشمن کو 27 فروری کو منہ توڑ جواب دیا جا چکا ہے‘ بھارت نے پاکستان کے ساتھ کوئی مہم جوئی کی تو پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ اس کی جانب سے دیے جانے والے جواب میں بھارت 65ء‘ کارگل اور 27فروری کی مار بھول جائے گا۔ 27 فروری کو تو پاکستان نے بھارت کے اقدام کے بعد بڑی پلاننگ کرکے جواب دیا تھا۔ اب حالات کے تناظر میں پاک افواج نے کئی ٹارگٹ یقینا مارک کرلیے ہوںگے اور ایک دن بھی سوچنے اور منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں ہوگی۔