کراچی کے بارے میں برطانیہ کی ٹریول ایڈوائزری تبدیل کی جائے، سراج قاسم تیلی
چیئرمین بزنس مین گروپ و سابق صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سراج قاسم تیلی نے برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر کے دورے کے موقع پر منعقدہ اجلاس میں کے سی سی آئی اور بی ایم جی کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ کے سی سی آئی 22ہزار سے زائد ممبران پر مشتمل ہے جو پاکستان بھر کے تمام 42چیمبرز آف کامرس سے زیادہ ہے اور یہ چیمبر کامیابی کے ساتھ تاجروصنعتکار برادری کو درپیش مسائل کو حل کرتا چلا آرہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ بزنس مین گروپ پچھلے 22سالوں سے کراچی چیمبر کو چلا رہا ہے اور ہر سال ہونے والے انتخابات میں بی ایم جی ہی جیت رہی ہے جبکہ کئی الیکشن میں بلامقابلہ کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ اللہ کے کرم سے اور تاجر وصنعتکار برادری کی سپورٹ کی وجہ سے ہم ایک سیٹ بھی نہیں ہارتے جس کی بنیادی وجہ بی ایم جی کی عوام خدمت پالیسی ہے۔ہم کراچی کی نمائندگی کرتے ہیں جو صنعتی، مالیاتی اور تجارتی سرگرمیوں کامرکز ہے اور 22ملین کی آبادی کے ساتھ ایک بڑا شہر ہے جو 3500اسکوائر کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور یہاں تمام ساتوں زونز میں16ہزار صنعتیں کے قریب صنعتیں فعال ہیں۔ہم قومی خزانے میں70فیصد کے قریب حصہ دار ہیں۔انہوںنے کہاکہ وفاق، صوبائی اور مقامی حکومت کی سطح پر کراچی سے وابستہ ہرمعاملے میںاپنے آپ کو شامل کرتے ہیں۔ چاہے امن وامان کی صورتحال ہو ، انفرااسٹرکچر یا دیگر مسائل ہوں ہم کراچی کے بارے میںہر اس مسئلے پر بات کرتے ہیں
اس شہر پر اثرانداز ہوتا ہو۔سراج تیلی نے کہاکہ بہت سے پاکستانی باالخصوص کراچی میں رہنے والے برطانیہ کواپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔لوگوں کی بڑی تعداد کاروبار کے لیے، چھٹیاں گزارنے اور تعلیم وغیرہ کے لیے متواتر برطانیہ کا دورہ کرتے ہیں۔ یہ دیکھ پر بہت خوشی ہوتی ہے کہ 60 سے زائد برطانوی کمپنیوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہے اور وہ کامیابی کے ساتھ اپنا کاروباری چلارہی ہیں۔ پاکستان اور برطانیہ بہت قریبی تعلقات سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور یہ امر بہت حوصلہ افزاءہے کہ دونوں ملکوں کے بہت سے اداروں کے درمیان باہمی مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں تاہم ابھی مزید بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اور دونوں جانب سے موجودہ تجارتی حجم کو مزید بہتر بنانے کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے جنوری2020کے اختتتام پر برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج پر رائے دیتے ہوئے برطانوی ڈپٹی ہائی کمیشن اور کراچی چیمبر کی ایک خصوصی کمیٹی قائم کرنے کی تجویز دی جسے برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے بعد کسی بھی ممکنہ مسئلے کا جائزہ لینے کا ہدف دیا جانا چاہیے جو تجاویز کی روشنی میں کاروبار میں مددگار ثابت ہو اور اس کے مطابق تجاویز دیں کہ کس طرح دونوں ملکوں تجارت کو ہموار بنایا جاسکے۔چیئرمین بی ایم جی نے ٹریول ایڈوائزری سے متعلق برطانوی ہائی کمشنر کے تبصرے کے جواب میں کہاکہ کراچی میں امن وامان کا کوئی مسئلہ نہیں۔ کراچی آج لاہور کے مقابلے زیادہ محفوظ شہر ہے۔2013سے قبل کراچی میں امن وامان کی صورتحال بہتر نہیں تھی چونکہ یہ شہر3500اسکوائر میٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے
لہٰذا شہر کے کسی حصے میں اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس کے بارے میں پتہ نہیں چلتا جب تک ٹی وی چینلز پر وہ نشر نہ ہو۔ بی بی سی اور سی این این نے کراچی پر اس انداز میں روشنی ڈالی جیسے یہ شہر انتہائی خراب ہے اور اس کا دورہ نہیں کرنا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ پچھلے 5 سے 6 برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنرز کے دور کو حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ تمام ہمیشہ آزادانہ طور ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں اور کئی مختلف سماجی تقریبات میں شرکت کرتے رہتے تھے ۔ چونکہ کراچی سات سال پہلے کی نسبت بہت بہتر ہے لہٰذا سراج قاسم تیلی نے برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر سے درخواست کی کہ وہ برطانیہ میں متعلقہ حکام سے کراچی کے بارے میں ٹریول ایڈوائزری کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کریں تاکہ برطانیہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ کراچی کا دورہ کرسکیں۔اس موقع پر برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر مائیک نیتھا وریاناکس نے کہا کہ پاکستان ایک ابھرتی ہوئی اہم مارکیٹ ہے جو زیادہ توجہ دینے کی مستحق ہے۔بین ا
لاقوامی تجارت کا شعبہ ( ڈی آئی ٹی ) پاکستان کے لیے اپنے وسائل میں اضافہ کررہاہے۔یہ حقیقت کا ادراک ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہیے اور یہاں وسیع مواقع موجود ہیں۔ ڈی آئی ٹی کے زیادہ وسائل سے ہماری صلاحیتوں میں اضافہ ہونے سے نہ صرف برطانوی کاروباری اداروں کو مدد ملے گی جو پاکستانی مارکیٹ میں کو تلاش کرنے کے خواہش مند ہیں بلکہ پاکستانیوں کمپنیوں کو بھی برطانوی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک میں مدد ملے گی۔برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر نے کہاکہ یواے ای میں5000برطانوی کمپنیاں کام کررہی ہیں اور ان میںبہت کم ہی پاکستان میں کام کررہی ہیں۔ اگر وہ پہلے ہی خطے میں موجود ہیں اور پاکستان کے قریب ہیں تو انہیں سنجیدگی سے پاکستان کی مارکیٹ کو تلاش کرنا چاہیے۔
ہم پاکستانی مارکیٹ کو تلاش کرنے والی برطانوی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں لیکن نئی برطانوی کمپنیوں کو تاثر کی وجہ سے قائل کرنا ایک چیلنج ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ا نہوں نے کہا کہ اگرچہ اسلام آباد ایک اہم شہر ہے لیکن کراچی بھی کاروباری نقطہ نظر سے انتہائی اہم شہر ہے کیونکہ یہ مالیاتی و کاروباری سرگرمیوں کا مرکز ہے جہاں کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، پاکستان اسٹاک ایکسچینج، اسٹیٹ بینک ، پاکستان بزنس کونسل، او آئی سی سی آئی اور دیگر دوسری اہم کمپنیوں اور اداروں کے مرکزی دفاتر ہیں۔ ہمارے پاس اسلام آباد اور لاہور میں کچھ وسائل موجود ہیں لیکن کراچی شہر کی اہمیت کی وجہ سے برطانوی ڈپٹی ہائی کمیشن ٹیم کی اکثریت یہاں کراچی سے کام کر رہی ہے۔انہوں نے برطانوی ،پاکستان تعلقات کو بے مثال قرار دیتے ہوئے کہاکہ دونوں ممالک شاندار اور سازگار شراکت سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور ہم اس شراکت کو ایک نئی سطح پر لے جانے کے خواہش مندہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ برطانیہ کے31جنوری2020سے یورپی یونین سے اخراج کے بعد ہمیں ایسا کرنے کا موقع ملے گا۔ پاکستانی نژاد 15لاکھ برطانوی لوگ مقیم ہیںجو برطانیہ کی آبادی کا 2.5فیصد ہیں۔پاکستانی باشندے کاروبار،تجارتی، سول سوسائٹی،سیاست،صحافت، کھیل، ثقافت اور میڈیا سے منسلک ہیں۔
انہوں نے برطانیہ پاکستان دوطرفہ تجارتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایک مثبت اور اچھی کہانی ہے لیکن یہ مزید بہتر ہوسکتی ہے۔ برطانوی اور پاکستانی حکومت کے لیے پاکستان سے برآمدی کاروبار زیادہ اہمیت کا حامل ہے لیکن ہم یہ دیکھنے کے خواہش مندہیں کہ دوطرفہ تجارت و سرمایہ کاری میں توسیع کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔پاکستان کی برطانیہ کے لیے برآمدات خاص طور پر ٹیکسٹائل شعبے میںاضافہ ہوا ہے کیونکہ اس شعبے کے لئے مخصوص مراعات اور قواعد وضوابط موجود ہیں لیکن میرے خیال میں برطانیہ کو بھی پاکستان میں زیادہ سے زیادہ اشیا برآمد کرنا ہوں گی جبکہ پاکستانی معیشت کے دیگر شعبوں کے لئے بھی برطانوی مارکیٹ برآمدات کے لحاظ پرکشش ہے ۔ہم اچھی پوزیشن میںہیں لیکن ہمیں زیادہ بہتر طور پر کام کرنا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ250ملین کی آبادی اور درمیانے طبقے کے ساتھ پاکستان انفرااسٹرکچر، توانائی، صحت عامہ، تعلیم ، پیشہ وارانہ خدمات اور دفاع و سلامتی کے شعبوں میں شاندار مواقعوں کی پیشکش کرتا ہے۔
اس موقع پر سینئر نائب صدر کے سی سی آئی ارشد اسلام ، نائب صدر شاہد اسماعیل، چیئرمین ڈپلومیٹک مشنز و ایمنیسیز لائژن سب کمیٹی شمعون ذکی اور کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔